شکایت ہے مجھے یا رب خداوندان مکتب سے (٣)

Posted on at


امر واقعہ یہ ہے کہ لارڈ میکالے کا یہ نظام تعلیم ہمرے نظریاتی تقاضوں کو پورا کرنے سے یکسر قاصر ہے-یہ نظام تعلیم نہ تو ھماری نظریاتی،اسلامی اور دینی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے اور نا مادی اور دنیاوی لحاظ سے ہمرے لیے سود مند ہے-اسی کے با عث ہمرے تعلیمی اداروں سے ایسے نوجوان برامد ہو رہے ہیں جو نہ صرف اسلامی اخلاق سے خالی ہیں بلکے انسانی اخلاق سے بھی بے بہرا ہیں-اس کے نتیجے میں حکومت کی بھاگ دوڑ ایسے افراد کے ہاتھوں میں جا رہی ہے ،جوں کی اکثریت دیانت،امانت،صداقت اور فرض شناسی کے اوصاف سے نا بلد ہے اور جو اپنے معمولی فائدے کی خاطر قومی و ملکی مفاد کو پاس پشت ڈال سکتے ہیں

-

انگریزوں کے وضح کردہ اس نظام تعلیم نے مسلمانوں پر جو اثرات بد مرتب کیے ان کا احساس خود علی گڑھ کے بانی اور انگریزی تعلیم کے سب سے بڑے حامی سر سید احمد خان کو بھی آخری عمر میں ہو گیا تھا اور انہوں نے دکھ بھری حیرت کا اظہار کرتے ہوے کہا تھا کہ:

"تعجب ہے کہ جو تعلیم پاتے جاتے ہیں اور جن سے قومی بھلائی کی امید تھی ،وہ مادہ پرست اور بد ترین قوم ہوتے جاتے ہیں"

مولانا شبلی نومانی نے انگریزی درس گاہوں کو "خالی کوٹ پتلون کی نمائش گاہ "قرار دیا تھا،اور اکبر آلہ آبادی نے اپنے بے پناہ تہذیبی شعور اور دور اندیشی کی بدولت اس نظام تعلیم کے مضمرات کا اندازہ لگا لیا تھا –اسی لیے وہ کہتے ہیں کہ :

شیخ مرحوم کا قول اب بھی مجھے یاد آتا ہے

دل بدل جایں گے ،تعلیم بدل جانے سے

مسجدیں سنسان ہیں اور کالجوں میں دھوم ہے

مسلہ قومی ترقی کا مجھے معلوم ہے

علامہ اقبال کو بھی اسی نظام تعلیم کی ہولناکیوں کا بخوبی اندازہ تھا ،چنانچہ انہوں نے اپنے کلام میں اسے جا بجا بری شدت سے ہدف تنقید بنایا ہے :

شکایت ہے مجھے یا رب خداوندان مکتب سے

سبق شاہین بچوں کو دے رہے ہیں خاکبازی کا

ہم سمجھتے تھے کہ لاے گی فراغت تعلیم

کیا خبر تھی کہ چلا اے گا الحاد بھی ساتھ

یہ صورتحال موجودہ نظام تعلیم کی فوری تبدیلی کا تقاضا کرتی ہے-ہمیں اپنے حسب حال نظام تعلیم مرتب اور نافذ کرنا چاییے جو ھمارے نظریاتی تقاضوں کو پورا کرنے کے علاوہ ھماری دینی اور دنیوی ضروریات کو پورا کر سکے –جو فرد کی سیرت و کردار کو مثالی خطوط پر تشکیل دینے میں معاون ہو-اور جو معاشرے کی اقتصادی ،سماجی سائنسی ،اور فنی ضروریات پورا کرنے کا بھی اہل ہو-ایسا نظام تعلیم ہی ہمیں وہ نوجوان بہم پونچھا سکتا ہے جو ہر لحاظ سے بہتر انسان،اچھے مسلمان اور سچی پاکستانی ہوں،جو کسی بھی نوع کی ذہنی غلامی میں مبتلا نہ ہوں اور جنہیں اپنے مسلمان اور پاکستانی ہونے پر فخر ہو

-

یھاں ایک اور امر قابل توجہ ہے کہ مثالی نظام تعلیم بھی اپنے مطلوبہ مقصد حاصل نہیں کر سکتا ،جب تک کہ طلبہ کو تعلیم و تربیت دینے والے اساتذہ ،تعلیمی مقصد کے حصول کے لیے مخلصانہ طور پر مصروف بہ عمل نہ ہوں-اساتذہ کو مثالی کردار کا حامل ہونا چاییے تا کہ طلبہ ان کی تقلید کرتے ہوے اپنی سیرت میں نکھار پیدا کر سکیں –جب تک مھلمین خود سراپا عمل اور صاحب کردار نہ ہوں گے ،نظام تعلیم کا کوئی بھی خوبصورت خاکہ ،رنگ روپ نہیں لا سکے گا- مختصر یہ کہ ہمیں اپنے قومی و ملی تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوے ایک ایسا نظام تعلیم وضع کرنا چاییے ،کہ ہماری مذہبی ،تہذیبی،ملی ،سماجی اور معاشرتی روایات و اقدار کے ہم آہنگ اور ان کا امین ہو-اسی صورت میں ہم اپنا قومی و ملی تشخیص برقرار رکھ سکتے ہیں،بصورت دیگر ایک المناک تباہی ہمارا مقدر ہو گی



About the author

aroosha

i am born to be real,not to be perfect...

Subscribe 0
160