اشرافیہ کا استقبال

Posted on at


اشرافیہ کا استقبال


ہمارے ملک جمہوریت کو برائے نام حثیت حاصل ہے ۔  آئے روز ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں جن کا حال سن کر دل حلق تک آ جاتا ہے اور آنکھیں پر نم ہو جاتی ہیں۔  مہنگائی اور غربت نے عوام کا جینا دوبر کر دیا ہے۔ معشعت زوال پذیری کی طرف جا رہی ہے ، بہتری کی امید نہیں نظر آتی ،ماحول پر مایوسی کا عالم طاری ہے۔ لوگوں کے چہریں مرجھائے نظر آتے ہیں۔ کوئی خوشی ہی ہے۔ عدلیہ چند ٹکوں کے حوض مدعی کو انصاف نہیں دیں سکتی۔  اُس امریکی عہددار  کی بات جو مشرف دور میں اُس نے کی تھی بار بار زہن میں آتی ہے ، پاکستانی قوم دو ٹکوں کے حوض اپنی ماں کو بھی بیچ دیتی ہے۔ عدلیہ کی بات اس لئے ادھر آگئی گزشتہ ماہ میرے سامنے عدالت نے ایک فیصلہ سنایا جس کا کوٹ  کے منصف کو با خوبی علم تھا اور اس کے باوجود منصف نے چند منٹ کی سماعت کے بعد چور ڈاکوؤں کے حق میں فیصلہ سنا دیا۔ جو یقیناً اگر قوم کے آگے دل خراش نہیں تو کم از کم ان لوگوں کے آگے ضرور عدلت کے منہ پر کالک ہے ۔



بات پرٹوکول کی ہو رہی ہے جوہمارے وقت کے وزیراعظم کی ہے۔  یہ واقعہ سات فروری بروز جمعہ کا ہے جو اپنی رہائش گاہ جو مری میں اسلام آباد کے لئے آرہے تھے۔ سپریٹنڈنٹ پولیس وزیراعظم کے قافلے کو غلطی سے دوسری سمت لے گے جدھر وزیراعظم کی گاڑی رش میں پھنس گئی۔  وزیراعظم کے نزدیک یہ ایک جرم کا ارتکاب کیا گیا۔ جس کی پاداش میں ایس پی کو نوکری سے معطلی کی سزا دی گئی اور ڈی جی پنجاب نے اس واقعہ کی تحقیقات کا حکم بھی دیا۔  ایسا ہی واقعہ اگے دن لاھور میں پیش آیا جہاں وزیرعظم کی گاڑی کلب روڑ میں پھنس گئی جو ڈی ایس پی اور انسپکڑ کی معطلی کا سبب بنا۔  یہ واقعات یقیناً ہمارے حکمرانوں کا طرز زندگی کا معیار بتاتے ہیں۔  اس طرح کے واقعات سے ہر روز ہمارے ملک کے باسیوں کا واسطہ پڑتا ہے۔  ایمبولنسوں میں موت و زندگی کی کشمکشا میں پھنسے ہوئے مریض اپنی زندگیوں کے چراغ راستے ہی میں گل کر دیتے ہیں اور ایسی حکومتی اہکاروں کی غفلت کے کا کسی سے بھی پوچھ نہیں ہوتی۔  راستے راستے میں پولیس ٹریفک کے اہلکار نقب زن اور رہزنوں کی طرح لوٹ مار میں مصروف نظر آتے ہیں کوئی ایس پی کوئی ڈی ایس پی معطل نہیں کیا جاتا۔ 



عدالتوں میں منصب ڈاکوؤں چوروں کے حق میں فیصلے دیتے ہیں کسی منصف سے اس گھناؤنے جرم کا نہیں پوچھتا نہ ہی معطل کیا جاتا ہے۔  اغواء ، قتل ، ریپ ، ڈکیتی چوری کے ہزاروں واقعات تھانوں میں ریکارڈ ہوتے ہیں اور ایسے ہی اَن گنت دل خراش واقعات ہوتے جن کا پولیس سراغ لگانے میں سرے سے ہی ناکام رہتی ہے لیکن حکومت کے کانوں میں جوں تک نہیں رینگتی اور جان بوجھ کر نظرانداز کر دیتی ہے نہ ہی اس کا کوئی ردعمل سامنے آتا ہے۔ عدم تحفط اور عدم انصاف اس قوم کا مقدر ہے،  قوم بار بار اپنے سر اُٹھا کر رب کائنات کے عدل کی طرف دیکھ رہی ہے اس کی بے آواز لاٹھی کب حرکت میں آتی ہے۔  کب تک یہ ظلم و ستم اور امتیازات روا رکھے جائے گے۔



صرف وزیراعظم کی گاڑی رش میں پھنسے پر ایس پی، ڈی ایس پی معطل کر دیئے جاتے ہیں۔ کیونکہ ہمارا ملک صرف صرف ملک ہے قوم نہیں۔ یہ محض زمیں کا ایک ٹکرا ہے جس پر اللہ کی طرف سے پیدا ہونے والا انسان بدقسمتی سے انسانیت کے درجے میں نہیں آتا ہے۔  اللہ کی طرف سے جو منصف اعلیٰ ہے انسان اشرف المخلوقات کا درجہ تو پا لیتا ہے لیکن اس کی حقیقت ہمارے ملک کے جاگیردار، سرمایہ کار اور افسران بالا قبول نہیں کرتے۔ مصائب جو قدرت والے نے اس ملک کے مقیمیوں کے نہیں دیئے ، نہ زرخیز زمینوں کے لئے پانی کم کیا نہ غلہ ، سبزیوں پھلوں کی مقدار میں کوئی کمی ہوئی۔  صرف اور صرف ایک عدلانہ حکومت کی ضرورت ہے جو اس ملک کے عوام کو مساوی حقوق اور عدل کا نظام دیں دے۔



ایسا انصاف جو صرف حکمرانوں کی نظر میں حکومتی اہلکاروں کی غفلت  کی وجہ سے صرف ایک آدمی کو نہ ملے  بلکہ عام لوگوں کے ساتھ بھی ان کے نارواں سلوک کا ایکشن لیا جائے ۔ کیونکہ ملک کو بدلنے کے لئے حکمرانوں کے رویوں میں تبدلی ناگزیر ہے۔  اور یہی آمرانہ رویے ملک میں جگہ جگہ بغاوت کو تقویت دے رہے ہیں کیونکہ اداروں کا کام صرف حکمرانوں کے لئے راستے صاف کرنا نہیں بلکہ ان کے اوپر قوم کی خدمت کا بڑا بوجھ ہے۔   


 


 



160