بچوں کی تربیت میں والدین و استاتذہ کا کردار

Posted on at


بچوں کی تربیت میں والدین و استاتذہ کا کردار


عدم مساوات و عدل ، مہنگائی و غربت  جیسی معاشرتی ناہمواریوں نے ہمارے ماحول کو بھی دیمک لگا دی ہے جو اسے اندر ہی اندر سے کھوکھلا کر رہی ہے ان ناہمواریوں نے ہمارے معاشرے کو ہر طرح کی بیماری میں مبتلا کر دیا ہے اور ہر شخص کا زہن منفی رویوں کی طرف جا رہا ہے۔  سرکاری سطح پر گریڈ فور سے لیکر افسران بالا کی پوسٹ تک بدعوانیت کا عنصر چھایا ہوا ہے۔  اڈوں ، بازاروں، منڈیوں ، کاروباری اداروں، صنعتوں میں پیداوری مصنوعات کا گرا ہوا معیار، اشیاء خورو نوش میں ملاوٹ، جعلی ادویات ، حتی کہ مساجد کے اندر سے قیمتی اشیاء کی چوری کی واردات ہمارے معاشرے کا معمول بن گیا ہے۔   



ان ساری معاشرتی بیماریوں نے  ہمارے ماحول کو آلودہ کر دیا ہے۔ سب سے زیادہ فکر قوم کے اُن معماروں کی ہے جنہوں نے آنے والے نازک وقت میں اس ملک کی بھاگ دوڑ سنبھالی ہے یعنی ہمارے بچے۔  گو کہ ماں باپ کا کردار اور گھر کا ماحول بچوں کی بہترین تربیت گاہ ہے۔ والدین اگر باشعور اور عالم و فاضل ہو گے تو بچوں کی تربیت اچھی ہو گی لیکن ہمارے بچے اس ماحولیاتی خوبی اور صلاحیت سے مرحوم ہیں۔  کردار سازی ، تہذیب و آداب ، تکریم و احترام گھر کے ماحول سے ہی ملتے ہیں۔  کیونکہ معاشرتی بیماریوں کا اچھوت تیزی سے پھیل رہا ہے  ہمارے بچوں کے ذہن والدین کی مشکلات و مصائب کو فوری بھانپ لینے کی صلاحیت رکھتے ہیں جو اس ذمہ داری کو اپنے سر پر لینے کی کوشش کرتے ہیں جو بچے کی صلاحیتوں کو ختم کرنے کا پیش خیمہ بنتے ہیں۔  بچوں کی صلاحیتوں کا استعمال اُن کی پڑھائی اور صحت تک محدود ہونا چاہئے۔



سکول کا ماحول بچوں کے دل و دماغ پر بڑا   کلیدی اثر رکھتا ہے۔  بچوں کا اٹھنا بیٹھنا، چال چلن ، بول چال و ادب کا اندازہ گھریلو ماحول سے لیا جاسکتا ہے جو ایک اچھے باصلاحیت قابل استاد کا خاصہ ہونا چاہیئے۔  بچوں کے کردار سے آسانی سے وہ کمزوری تلاش کی جا سکتی ہے جو اُسے بیمار ماحول سے ملی ہے۔  بعض بچے دوسرے بچوں کی بک، کاپیاں، پنسلیں، ربڑ وغیرہ چرا لیتے ہیں استاتذہ کو ایسے بچوں پر نظر رکھنی چاہیے اور اُن کی زہن سازی نفسیاتی طریقے سے کرنی چاہیے۔  استاتذہ کو بچوں میں گل مل کر بچوں سے ڈئیلاگ سے معاملات کو حل کرنا چاہیے۔  بچوں کی کردار سازی میں استاد کا کردار والدین سے ذیادہ ہے اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی جب سارے بچے اکٹھے ہوتے ہیں تو بچوں کی اندر کی چھپی ہوئی صلاحیت کس قدر آفشاہ ہوتی ہے اور ان صلاحیتوں کو کیسے بااعتماد طریقے سے اپنے سکول کے ماحول سے نبرآزما ہوتا ہے۔  استاتذہ سے بچے کا برتاؤ ، اپنے ہم جماعت دوستوں سے اور اپنے سینیر سے بچے کا رویہ کیسا ہے۔  



خود اعتمادی کی صلاحیت بچوں کے اندر استاتذہ کی حوصلہ افزائی کی مرہون منت   ہے۔  الفاظ کے تالفظ و بیان کی صلاحیت کے ساتھ بچوں کو سب کے سامنے ریڈنگ کروانا، اسمبلی میں نمبروار طریقے سے ترانے و حمد ونعت پڑھوانا بچوں کی جھجک کو دور کر کے اُس کے بولنے کی صلاحیت میں خود اعتمادی لاتا ہے جو اس کی عملی زندگی میں کارآمد ثابت ہوتا ہے۔



بچوں کی صحت کے حوالے سے بھی استاتذہ کا کردار اہم ہے جسے اکثر نظر انداز کیا جاتا ہے۔  کنٹینوں ، کیفے ٹیریا سے مضر صحت کھانے پینے کی اشیاء سے بچوں کی صحت گر جاتی ہے جس کا بلواسطہ اثر بچوں کی پڑھائی پر پڑتا ہے۔  اچھی صحت اچھے ذہن لاتی ہے اور اچھی صحت ہی بچوں کو حقیقی منزل یعنی پڑھائی کی طرف توجہ مبذول کرواتی ہے۔  اچھی صحت بچوں میں خود اعتمادی لاتی ہے جو اُس میں زندگی کی مشکلات کو بااحسن طریقے سے نبر آزما ہونے کی صلاحیت پیدا کرتی ہیں۔  بچوں کو ضرور مضر صحت اشیاء خردو نوش کے صحت پر اثرات کا شعور اجاگر کرنا چاہیے اور ساتھ ساتھ بچوں کی جسمانی صفائی ، جسم کی دیکھ بھال ، نہانا،صاف ستھرے کپڑے پہنا، دانتوں کی صفائی،  کھانا کھانے سے پہلے  اچھی طرح ہاتھ دھونا، ٹائلٹ استعمال کے بعد ہاتھ دھونا، ناخن کاٹنا صحت مندی کے ضوابط میں آتا ہے۔



بچوں کو صحت مند و غذائیت سے بھرپور غذاؤں کا علم دینا چاہیئے۔ سبزیوں ، پھلوں ، دودھ وغیرہ کے استعمال کے فوائد بتانا چاہیے۔ ان ذمہ داریوں کا اطلاق استاتذہ پر ہوتا ہے جو نظم و ضبط کے دائرے میں ہونا چاہئے تا کہ بچے ان ںصیحتوں  کو سنجیدہ طریقے سے اپنائے۔


 



160