اقبال کاتصور عقل و عشق (١)

Posted on at


اقبال کے یھاں عقل کی تنقید کا مضمون اکثر عشق کی توصیف کے دوش بدوش چلتا ہے اور جا بجا اوقات ایک ہی شعر کے دو مصرعوں میں.کہیں کہیں مسلسل اشعار میں انکا موازنہ اور مقابلہ ملتا ہے-وہ عشق کو عقل کے مقابلہ میں فضیلت دیتے ہیں،اس لیے کہ اس سے حقائق اشیاء کا مکمل علم اور بصیرت حاصل ہوتی ہے-پھر یہ کہ انسانی زندگی میں جتنا اس کا اثر ہے،عقل کا اثر اس کا عشر عشیر بھی نہیں-زندگی کا ہنگامہ اس سے ہے-اگر دل بھی عقل کی طرح فرزانہ ہوتا تو جینے کا لطف باقی نہ رہتا –

تہی از ہاے و ہو مے خانہٴ بودے

گل ما از شرر بیگانہ بودے

نبودے عشق و این ہنگامہ عشق

اگر دل چوں خرد فرزانہ بودے

فطرت کی بزم خموشاں میں عشق ہی سے سری رونق ہے-لطف یہ ہے کہ عشق کا لازمی نتیجہ بے تابی اور اضطراب ہے لیکن دل کو اسی میں مزہ ملتا ہے- لیکن یہ خیال کرنا غلط ہے کہ اقبال عقل کے مخالف ہیں-وہ یہ نہیں کہتے کہ عقل بے کار ہے-ان کے نزدیک عقل ہی سے خارجی اشیاء کی تقسیم بندی ممکن ہے-جس کے بغیر انسان کے تصرف و ایجاد کی صلاحیتیں برؤے کار نہیں آسکتیں –ان کے نزدیک عقل کا کام یہ ہے کہ وہ مادی ہے مکانی دنیا کے معا ملات کو سلجاے اور ان کے مخفی پہلوؤں کی عقدہ کشائی کرے-لیکن زندگی اور ذہن کی اندرونی کیفیت ہم صرف عشق و وجدان کے ذریعے محسوس کرتے ہیں-جب ہم زندگی کے ان مسائل کو سمجھنا چاہتے ہیں جن کا تعلق جذبہ و تاثر سے ہے تو ہمیں وجدان کے سر چشمے کی طرف رجوع کرنا پڑے گا

-

جس سے ھماری جبلتیں اور جذبات سیراب ہوتے ہیں-اقبال عقل کو بھی زندگی کے خادموں میں شمار کرتے ہیں-زندگی پر اس کے بہت کچھ احسان ہیں،لیکن وہ سب کچھ تو نہیں ہے-اس پر حد سے زیادہ تکیہ کرنا درست نہیں-اس کی رسائی بس ایک حد تک ہے اور جس حد تک اس کی رسائی ہے،وہ بھی کچھ کم اہم نہیں-جذبہ اور وجدان بھی اسی وقت قبل اعتبار ہونگے جب کہ ان کی رہنمائی میں انسان اقدار حیات کی طرف قدم بڑھاے –بغیر عقل کے تعاون کے ہمیشہ اندیشہ رہے گا کہ یہ قدم اندھا دھند ہلاکت کی طرف نہ بڑھیں- علم اور عقل انسان کو منزل کے قریب تو پوھنچا سکتے ہیں لیکن بغیر عشق کی مدد کے منزل کو طے نہیں کرا سکتے:

عشق گو آستاں سے دور نہیں

اس کی تقدیر میں حضور نہیں

علم میں بھی سرور ہے لیکن

یہ وہ جنت ہے جس میں حور نہیں

دل بینا بھی کر خدا سے طلب

آنکھ کا نور،دل کا نور نہیں

اگرچہ عام طور پر عقل سے رہنمائی کا کام لیا جاتا ہے لیکن عشق عقل سے زیادہ صاحب ادراک ہے زمانہ عقل کو سمجھا ہوا ہے مشعل راہ

کسے خبر کے جنوں بھی ہے صاحب ادراک

اقبال کو اپنے ہم مشربوں سے شکایت ہے کہ وہ اس جنوں سے محروم ہیں،جو عقل کو کار سازی کی راہ و رسم سکھا سکے :

ترے دشت و در میں مجھ کو وہ جنوں نظر نہ آیا

کہ سکھا سکے خرد کو رہ و رسم کار سازی



About the author

aroosha

i am born to be real,not to be perfect...

Subscribe 0
160