شاہ جہاں نے یہ فیصلہ کیا کہ ممتاز کے لئے کوئی ایسا مقبرہ بنایا جائے اس جیسا کوئی اور مقبرہ نہ بنایا گیا ہونہ ہی کبھی کسی نے دیکھا ہو تاکہ شاہ جہاں کی ممتاز کے لئے محبت ہمیشہ کے لئے تاریخ کا حصہ بن جائے- بعض لوگوں کے مطابقایک ایرانی انجینئیر عیسیٰ شیرازی نے اس مقبرے کا نقشہ تیار کیا تھا جب کہ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ شاہ جہاں نے اس کا نقشہ خود تیار کیا تھا- چنانچہ پوری دنیا سے سفید ماربل اس کی تعمیر کے اے منگواے گئے اور اس مقبرے کو تاج محل کا نام دیا گیا- لفظ تاج محل دو لفظوں کا مرکب ہے "تاج" اور "محل" اس لئے تاج محل کا مطلب ہے تاج کی جگہ- تاج محل کی تعمیر کے لئے بیس ہزار معماروں اور مزدوروں نے کام کیا اور ١٦٣٢ سے لیکر ١٦٥٠ تک کے عرصے میں مکمل ہوا-
تاج محل کی تعمیر میں تقریبا اس زمانے کے چار کروڑ روپے صرف ہوے اور اس کا ڈیزائن عربی کے طرز کا ہے- تاج محل کو اسلا می فن تعمیر کے مطابق بنایا گیا تھا، مقبرے کی دیواروں میں قرآنی آیات نقش ہیں اور یہ یونیسکو کے ثقافتی ورثے میں سے ایک ہے- اس محبت کی نشانی کو اس کے حسن کی وجہ سے دنیا کی حسین ترین عمارتوں میں شامل کیا جاتا ہے اور یہ دنیا کا سات عجوبوں میں شامل ہے- تاج محل انڈیا کے شہر آگرہ میں واقع ہے ہر سال لاکھوں سیاح اس عظیم شاہکار کو دیکھنے آتے ہیں- ممتاز کے ساتھ ساتھ اس مقبرے میں شاہ جہاں کی اپنی قبر بھی ہے-
جب تاج محل کی تعمیر مکمل ہو گئی تھی تب شاہ جہاں نے مزدوروں کی آنکھیں نکلوا لیں اور ہاتھ بھی کٹوا دے تھے کہ وہ لوگ دوبارہ ایسا کوئی شاہکار تخلیق نہ کر دیں- یہ کیسی محبت تھی جس کی سزا بے چارے غریب مزدوروں کو دی گئی؟ تاج محل کو محبت کی نشانی سمجھا جائے یا ظلم کی نشانی؟ کسی بھی حکمران کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ عوام کا پیسہ اپنے ذاتی کاموں کا لئے استعمال کرے- وہ پیسہ جسے عوام کی بھلائی کے لئے استعمال کرنا تھا اسے خوامخواہ ایسے کاموں می صرف کیا گیا تھا یہیں سے مسلمانوں کے زوال کا آغاز ہوا- ممتاز محل تو مر گئی تھی اس کے مقبرے کو حسین بنانے کی بجاے یہ پیسہ مسلمانوں کی تعلیم کے لئے بھی خرچ کیا جا سکتا تھا مگر مغل بادشاہوں نے صرف عمارتیں بنانے پر زور دیا-