پاکستان اور بھارت کو رنجشیں بھلا دینی چاہیے

Posted on at


پاکستان اور بھارت کو رنجشیں بھلا دینی چاہیے


پاکستان اور انڈیا دوںوں ممالک کی آبادی کو اکٹھا کیا جائے تو ایک ارب پچاس کروڑ کے لگ بھگ بنتی ہے۔ اس آبادی کاایک تہائی حصہ انتہائی غربت کی زندگی گزار رہا ہے۔ بنیادی ضروریات زندگی جس میں صحت، خوراک اور تعلیم ہے آبادی کا بڑا حصہ محروم ہے۔ یہ حقیقت ہے پاکستان کے مقابلے میں عام آدمی کے لئےبھارت میں زیادہ سہولیات ہیں شاہد اس وجہ وہاں پر جمہوریت میں استقلال ہے۔  اس کی ایک مثال تو   بھارت کے حالیہ انتخابات کی ہے جس میں چوراسی کروڑ عوام نے شفاف طریقے سے حق راہے سے اپنے نمائندوں کا چناؤ کیا۔  نریندر مودی وزیراعظم بنا جو ایک چائے بھیچنے والے کا بیٹا ہے۔  پاکستان میں ہم ایسی بات کا سوچ بھی نہیں سکتے کہ ایک ادنیٰ متوسط طبقے کا فرد بھارتی جمہوریہ کا وزیراعظم بن سکتا ہے۔  اس کو جمہوریت کی خوبصورتی کہہ سکتے ہیں۔



پاکستان اور بھارت کے دفاعی اخراجات اربوں کھربوں  ڈالر سالانہ ہے ۔  ان دفاعی اخراجات کو میزائلوں، اسلحہ کی خریداری، جنگی ہوائی جہازوں، ابدوزوں ، بحری جہازوں سپاہ کی تنخواہوں اور تربیت سازی پر صرف کی جاتی ہے۔  یہ ضروری ہے کہ قوم و ملک کے تحفظ کے لئے عسکری طاقت ہونی چاہیے لیکن ایک مشہور مقولہ ہے جتنی چادر ہو اتنے پاؤں پھیلانے چاہیے۔  ہمارے غریب ملک میں قتل ، اقدام قتل، چوری ، اغواء، ڈاکہ زنی، سرکاری اداروں میں حکومتی خزانے کی لوٹ مار، رشوت ستانی، بدعنوایت کے گھن نے ہر چیز چٹ کر دی ہے۔  تقریباً یہی حال پڑوسی ملک کا بھی ہے ، انیس بیس کا فرق ہو سکتا ہے۔ 



ایک مشہور امریکن مصنفہ کتھرین میو نے 1927 میں ایک کتاب مدر انڈیا کے نام سے لکھی ، اس کے مطابق برصغیر کے لوگ انتہائی نالائق اور قابلیت سے مبرا ہے ۔ اُس کے مطابق یہاں کے لوگ میں حکمرانی کرنے کی اہلیت و صلاحیت نہیں ہے۔ اس کے مطابق ہندوستان کو آزاد نہیں کرنا چاہیے۔  اس تناظر میں دیکھا جائے اس خطہ کے لوگوں کو اپنی قابلیت کا لوہا بہت پہلے منوا لینا چاہئے تھا لیکن مسلسل دوںوں ملکوں کی رنجشوں نے کسی حد تک کتھرین کی بات کو درست ثابت کیا ہے۔ اب جو ہو گیا سو گیا۔ دوںوں ملکوں کو ضرورت ہے امن ، آشتی کی۔ اپنے جغرافیائی اور دیگر درپیش مسائل حد کر کے اس خطہ کے لوگوں کو غربت و افلاس و بھوک جیسے سنگین مسائل سے نکلنے کا وقت ہے۔  ہمارے وقت کے حکمران اس سلسلے میں جو تعلقات کو بہتر بنانے کے جو پیش رفت کر رہے ہیں وہ حوصلہ افزا ہیں۔ 



اس کے ساتھ ساتھ دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات کی بہتری سے تجارتی تعلقات بھی ہو گے اور خصوصاً اشیاء خردونوش کی بحران اور قلت کے وقت ایک دوسرے کی غذائی ضررویات کو بھی پورا کیا جاسکے گا۔ اس کی ایک حالیہ مثال آلو کی فصل کی دی جاسکتی ہے۔  خراب اور کم پیداوار کی وجہ سے ملک میں آلو کی قلت پیدا ہو گئی تھی اور اس کے نرخ آسمان سے باتیں کرنے لگے جو غریب آدمی کی قوت خرید کی دسترس سے باہر ہو گئی۔  حکومت کے فوری اقدام سے آلو بھارت سے درآمد کیا گیا اور اس کی قلت اور قیمت کو کنٹرول میں لایا گیا۔  پاکستان میں اور ہزارہ میں سوپ سٹون کی مائنگ کی جاتی ہے ، سوپ سٹون کا سب سے اعلیٰ معیار ٹالکم پاوڈر ہے جو بناؤ سنگھار کی مصنوعات میں استعمال کیا جاتا ہے ، بھارت میں پاکستانی ٹالکم پاوڈر کی بڑی مانگ ہے۔ اس طرح بھارتی اشیاء کی بھی پاکستان میں کافی کھپت ہے۔  دونوں ملک ایک دوسرے کے ساتھ تجارت کے توازن کو برقرار رکھتے ہوئے ایک دوسرے کی ضروریات کو پورا کر سکتے ہیں جو علاقے میں ایک عام آدمی کی قوت خرید میں ہو گا۔  پاکستان اور بھارت نے ایک دوسرے کے الیکٹرانک میڈیا پر پابندی لگائی ہے ، دونوں ملکوں کو ان الیکٹراک میڈیاز سے پابندی اٹھا لینی چاہیئے تا کہ عوام   ایک دوسرے کے حالات سے باخبر رہے اس چیز سے عوام کو ایک دوسرے کے مسائل کو سمجھنے میں آگائی ملتی ہے اور قریب آنے کا موقع ملتا ہے۔



اب وقت ہے کہ دونوں ممالک کھلے دل سے ایک دوسرے کا احترام کرے اور اپنے تصفیہ طلب مسائل حل کر کے سفارتی اور تجارتی تعلقات کو   بحال کریں تاکہ دونوں ملکوں کے مابین معاشی سرگرمیوں کے فروغ سے مہنگائی اور غربت میں کمی لائی جا سکے۔


 



160