"منافقت"

Posted on at


سچے دین کے نظرے پر رایمان رکھنے والے فرد کا کردار تلواری کی مانند ہے کہ اگر وہ باطل کی کاٹ نہ کر سکے تو اسے تلوار نہیں کہ سکتے- تلوار لکڑی کی بھی ہو سکتی ہے لیکن مگر لوہے کی تلوار جیسی کاٹ اس میں کہاں سے آۓ گی؟ کسی کے اندر اگر جوہر مردانگی اور غیرت و حمیت فطری توڑ پر مجود ہو تو اسلام کرنے کے بعد یہی اوصاف جو باطل اور جاہلیت کی راہ میں معاون تھے، اب حق اور اسلام کی راہ میں کام اہیں گے- اس لئے حضور نے ارشاد فرمایا

"یعنی جو لوگ زمانہ جاہلیت میں تمھارے سردار اور بہترین تھے وہ اسلام قبول کرنے کے بعد بھی سردار اور بہترین لوگ ہیں"

 

قرآن حکیم تو مومن کو راہ مولا میں وقف ہو جانے والا قرار دیتا ہے- سوره التوبہ میں ارشاد ہوتا ہے

ترجمہ:

" اللہ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے مال جنت کے عوض خرید لئے ہیں"

اس کی زندگی بھر کا فرق یہ قرار پاتا ہے-

ترجمہ :

"اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کرتے رہو"

نبی کریم نے تو ایمان کے زیادہ سے زیادہ تین درجے متعین فرما دیے ہیں-

ترجمہ:

"تم میں سے جو شخص بدی کو دیکھے تو تو اسے ہاتھ سے بدل ڈالے اور اگر یہ طاقت نہ ہو تو زبان سے بدلے اور اگر یہ طاقت سے بھی اسے نہ ہو تو دل سے بدلے- اور یہ اایمان کی سب سے کمزور حالت ہے" (ابو سعید الخدوی/مسلم

برائی کو دیکھ کر مومن کا دل بھی اس پر نہ کھرتا ہو تو یہ کمزوری ایمان  کی دلیل ہے- کردار میں نفاق یا منافقت یہیں سے پیدا ہوتی ہے پھر کچھ بعیدنہیں کہ نیکی کو قائم کرنے ارو بدی کو مٹانے کے بجاے آدمی اس کے برعکس رویہ اختیار کر لے- سوره توبہ میں صاف ارشاد ہوتا ہے-

ترجمہ:

"منافق مرد اور منافق عورتیں، سب ایک دوسرے کے ہم رنگ ہیں، حکم برائی کا دیتے ہیں اور روکتے ہیں تو بھلائی کو ، اور اوپر عمل خیر سے دستبردار رہتے ہیں وہ الله کو بھول گۓ تو اللہ نے ان کو بھلا دیا"

جب مدینے میں اسلامی معاشرے کا آغاذ ہوا تو کچھ حالات سے مجبور ہو کر اور کچھ بری نیتوں کے ساتھ ایسے منافقانہ کردار کے لوگ اسلام میں داخل ہونا شروح ہوۓ - انہوں نے خود رسول ٌ کی مجودگی میں کیا کیا گل کھلاۓ، قرآن کریم کے صفحات ان کی داستان سے بھرے پڑے ہیں اور یہ داستان عبرت قیامت تک اہل ایمان کیلئے درس عبرت نبی رہے گی- آج پچیدہ انسانی نفسیات اور افعال کے تحقیقی و تجزیاتی مطالعے کے لئے ان سے بڑھ کر رہنمائی اور کہیں سے حاصل نہیں ہو سکتی-

 

 

 

سوره فاتحہ کے بعد ہی سورت البقرہ کا دوسرا رکوع پورا کا پورا اس قدر جامع ہے کہ منافقت کا پورا تعارف اور منافقت کی بنیادی نشان ووہی کے لئے یہ کافی ہے- اس ارشاد کے مطابق منافیقیں اپنے دعویٰ ایمان میں سچے نہیں یہیں ہے "ایمان والے تو وہ سرے سے نہیں ہیں"پر معاملے میں ان کا رویہ یہ کیوں ہوتا ہے-

ترجمہ"

"وہ اللہ سے اور ایمان لانے والوں سے چلبازی کرتے ہیں"

کیوں کہ جان بوجھ کر شرارت کرنے کی فطرت سزا یہی ہو سکتی ہے اس کی شرارتوں کا یہ حال ہے کہ!

ترجمہ:

"جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین پر فساد بڑ پامت ہو تو کہتے ہیں، ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں"

ہر وقت الله سے ہمیں دعا کرنی چاہیے کہ وہ ہمارے ایمان کو مظبوط سے مظبوط تر کرے اور ہماری بھول چوک،کمزوریوں اور کوتاہیوں سے درگزر فرماے (امین)

 

 



About the author

hamnakhan

Hamna khan from abbottabad

Subscribe 0
160