تعلیمی پس ماندگی کے اسباب ذمہ دار کون؟ حصہ دوئم

Posted on at


تعلیمی پس ماندگی کے اسباب ذمہ دار کون؟


ملف:Arfa-Karim-Randhawa_fa_rszd.jpg


ہمارے ملک میں تعلیمی  حالت عجیب سی ہے کبھی اس کی گود سے ارفع کریم، علی محسن اور علی معین نوازش جیسے سامنے آنے والے کچھ مظاھر ہونٹوں پر تبسم بکھیرتے ہیں وہیں دو اور ڈھائی فساد کے درمیان بھٹکتا تعلیم کا بجٹ آنکھیں نم کر دینے کے لئے کافی ہوتا ہے-  کبھی اسی تعلیم کے نام پر کھیلے جانے والے کثیرالجہتی کھیل اعصاب چٹخانے شروع کر دیتے ہیں تو کبھی اسی تعلیم کے لئے اقدامات کی ضرروت بے چین کردیتی ہے-



 اسی کشمکش میں سرکاری سکول کی جماعتیں یاد آتی ہیں جو پورا دن دھوپ کی وجہ سے درختوں کے ساۓ کا پیچھا کرتی گھومتی رہتی ہیں ادھر ہی بھاری بھر کم فیسیں لینے والے نجی اسکول ذہن میں آتے ہیں جن کے لئے تعلیم کسی بازاری جنس سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں ہے-  اس صورت حال میں سرکاری شرح خواندگی کچھ ڈھارس بندھاتی ہے مگر جب حقیقی شرح خواندگی جلوہ گر ہو کر سامنے آتی ہے تو سر جھکنے پر مجبور ہو جاتا ہے اور اس کے بعد جو صورت ابھرتی  ہے وہ کچھ اس طرح سے ہے ہمارے پاس سکولوں کی تعداد کا پلڑا تو بھاری ہے مگر علم کے حجم کا پلڑا ہوا میں معلق ہے اور ظاہر ہے جہاں ایسی صورت حال ہو وہاں ترقی کسی دیوانے کے خواب سے کیسے مختلف ہو سکتی ہے بھلا؟



ہمارے جو برزگ گزرے ہیں انہوں نے "علم" کو بڑی دولت کہا ہے مگر ہمارے ہاں اس میں چھپے فلسفے پر دیھان دینے کے بجاۓ پڑھانے والوں اور  علم حاصل کرنے والے دونوں کا مقصد ہی صرف  "دولت"  تک محدود رہ گیا ہے ، ٹیچر پڑھانے کے بدلے اچھا معاوضہ چاہتا ہے اور طالب علم کو اچھی ملازمت چاہتا ہے ، اور اس صورت حال میں علم کا حقیقی مقصد مخصوص مقاصد کی دھند میں کہیں کھو کر رہ گیا ہے اور اسی وجہ سے ہمارے ملک میں لکھت پڑھت سے واقف لوگ تو بہت سے ہیں مگر خواندہ لوگ حقیقت میں بہت کم ہیں اور اس کی ایک وجہ طبقاتی نظام بھی ہے-



ہم اپنے گریبان میں تھوڑے وقت کے لئےجھانکیں تو پتہ چلے ہم بھارت، امریکا اور یو کے سے تو صرف فلموں کی حد تک بڑے متاثر ہو جاتے ہیں لیکن ان کی علمی ترقی کو دیکھ کر ٹس سے مس نہیں ہوتے ہم میں سے ہر کوئی  بڑی شان سے بتا رہا ہوتا ہے کہ نئی آنے والی فلم کون سی سے اور اس کا پسندیدہ اداکار کون سا ہے لیکن یہ کوئی نہیں جانتا کہ ان ممالک کی لیبارٹریوں میں کتنے لوگ رات دن ایک کیے ہوے ہیں ہم لوگ امتحانات میں زیادہ نمبر لینا تو چاہتے ہیں لیکن مضامین کو سمجنھے بجاۓ رٹا لگانے پر زور دیتے ہیں-



بچے کتابوں کو پڑھنے کی جگہ نوٹس اور منی گائیڈز کے چکروں میں پڑتے ہیں اور پھر ایسی قوم کی دانش کلرکوں سے آگے کبھی نہیں بڑھ سکتی- ہمارے ملک میں صرف نصاب کو بدلنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اذہان کو بھی بدلنے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ ہمارا مقصد قصبے یا پھر گاؤں کا نواب نہیں بننا بلکہ اس دنیا میں رہ کر اس دنیا کا مقابلہ بھی کرنا ہے- یہ دنیا اسی کی بات سنتی ہے جو اس کی رمز جانتا ہو- ان سب میں ہمیں ناامید نہیں ہونا چائیے بلکہ جو ہماری غلطیوں اور لاپرواہیوں سے جو ٹیلنٹ ضائع ہو رہا ہے اسے بچا کر اس سے استفادہ کریں-  



 



About the author

Kiran-Rehman

M Kiran the defintion of simplicity and innocence ;p

Subscribe 0
160