اقبال کاتصور عقل و عشق (٣)

Posted on at


برگساں کے فلسفہ الہام پر گفتگو کرتے ہوے اقبال نے یھاں تک لکھا ہے کہ جسے عشق یا جنوں کہا جاتا ہے،وہ دراصل عقل ہی کی حد درجہ ترقی یافتہ صورت ہے-عقل و عشق دونو زندگی کے رہبر ہیں اور دونو منزل سے آشنا ہیں-فرق یہ ہے کہ جو کام عقل حیلے حوالے سے کرتی ہے عشق اسے آن کی آ ن میں کر دکھاتا ہے:

ہر دو بہ منزلے رواں ہر دو امیر کارواں

عقل بہ حیلہ می برد عشق برد کشاں کشاں

شاید اسی لیے اقبال کا دعوہ ہے کہ عشق و جنوں کی سرمستی میں بھی ، آوروں کی طرح نہ تو وہ ہوش و حواس سے بیگانہ ہوتے ہیں اور نہ پاس گریبان سے غافل ہوتے ہیں-ان کی دیوانگی ایسی ہے جو کسی اور دیوانے کے بس کی بات نہیں ہے:

با چنیں ذوق جنوں پاس گریبان داشتم

در جنوں از خود نہ رفتن کار ہر دیوانہ نیست

یہی نہیں،ان کا خیال تو یھاں تک ہے کہ کبھی کبھی فلسفہ و حکمت اور علم و عقل بھی عشق و جنوں کا وسیلہ بن جاتے ہیں اور فرزانگی ایسے ذوق و جنوں سے آشنا ہو جاتی ہے کہ اہل خرد اپنا گریبان چاک کرنے لگتے ہیں-ایک اور جگہ انہوں نے مختصر الفاظ میں یہ بتایا ہے کہ عقل و عشق میں کچھ زیادہ فرق نہیں ہے بلکہ عقل جب سوز سے ہمکنار ہوتی ہے تو عشق بن جاتی ہے:

چہ مع پرسی میں سینہ دل چیست

خرد چوں سوز پیدا کرد دل شد

ایک اور جگہ اقبال یوں بیان کرتے ہیں کہ: مقام عقل سے آساں گزر گیا اقبال مقام شوق پہ کھویا گیا یہ فرزانہ بات یہ ہے کہ اقبال کے نزدیک دانش یا علم کی دو قسمیں ہیں:ایک دانش برہانی اور دوسری دانش شیطانی –اگر علم و عقل ،روحانی حقائق سے آگاہ نہ ہوں اور صرف جسم پروری کے کام کر رہے ہیں تو یہ دانش شیطانی ہے –اس کے بر عکس اگر علم و عقل ،روحانی حقائق سے آشنا ہوں اور منزل تک پھنچنے کا راستہ ہموار کر کے انسان کے دل میں اعلی مقاصد کے لیے آرزو پیدا کرتے ہیں تو یہ دانش برہانی ہے اور اسی دانش نرھانی کا دوسرا نام عشق ہے:

عشق کی تیغ جگر دار اڑا لی کس نے

علم کے ہاتھ میں خالی ہے نیام اے ساقی

یہ چند اور اشعار جو عشق و عقل کے امتیاز کو ظاہر کرتے ہیں:

عشق کی گرمی سے ہے معرکہ کائنات

علم مقام صفات ،عشق تماشاے ذات

عشق سکوں و ثبات ،عشق حیات و ممات

علم ہے پیدا سوال،عشق ہے پنہاں جواب

ان تفصیلات سے اقبال کے تصور عقل و عشق کا پتا چلتا ہے-وہ اگرچہ عشق کو عقل پر ترجیح دیتےہیں،تاہم عقل کی اہمیت سے انکاری نہیں ہیں-درج بالا تفصیلات سے یہ بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اقبال کا تصور عشق اردو فارسی کے دوسرے شعرا سے کتنا مختلف ہے –اقبال کے نزدیک عشق محض اضطراری کیفیت،ہیجان جنسی ،حواس باختہ از خود رفتگی ،فنا آمادگی ،یہ محدود کو لا محدود میں گم کر دنے کا نام نہیں ہے،بلکہ ان کے یھاں عشق نام ہے ایک عالمگیر قوت حیات کا ،جذبہ عمل سے سر شاری کا،حصول مقصد کے لیے بے پناہ لگن کا اور عزم و آرزو سے آراستہ جہد مسلسل کا-یوں یہ تصور عشق روایتی تصور سے قطع منفرد اور ہٹ کر ہے-



About the author

aroosha

i am born to be real,not to be perfect...

Subscribe 0
160