انٹرنٹ اور سوشل میڈیا کی عصر حاضر میں اہمیت

Posted on at


انٹرنٹ اور سوشل میڈیا کی عصر حاضر میں اہمیت



چند دن پہلے   ملک کے   وزیر مملکت برائے بجلی و پانی عابد شیر علی  کا بیان پڑھا جس میں موصوف نے عمران خان کے بارے میں کہا کہ عمران خان اور اُن کی جماعت  سوشل میڈیا کی پیداوار ہے۔  وزیر موصوف کے بیان سے کوئی اختلاف نہیں، موجودہ زمانے میں اب سوشل میڈیا کی اہیمت ٹاپ لسٹ پر ہے۔  دیگر میڈیا جن میں  پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا قابل ذکر ہیں سوشل میڈیا کی اہیمت کو جانتے ہوئے اپنی اپنی ویب سائٹ اور فیس بک پر پیچ بنا لیئے ہیں۔  ملک کے تمام معروف اخبارات انٹر نیٹ پر آ گئے ہیں اور جب چاہیے کسی بھی نئی یا پرانی خبر سے رسائی مل سکتی ہیں۔ 



 


ملک میں انٹر نیٹ صارفین کی تعداد کروڑوں میں ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔  ملک میں صرف فیس بک کے ایکٹو اکاؤنٹ کی تعداد ستر لاکھ بتائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ملک میں سرکاری اور نیم سرکاری ادارے  بھی انٹرنٹ کا استعمال کر رہے ہیں جن میں بیکنگ کا نظام، نیشنل ڈیٹا بیس (شناختی کارڈ اور پاسپورٹ وغیرہ)،   ایف بی آر جو ٹیکس کا ادارہ رجسٹر کنداگان کا سارا ڈیٹا آن لائن کیا ہوا ہے۔  ملک میں غیر ملکی سفارت کاروں نے ویزوں کا اجرا بھی آن لائن کر دیا ہے۔  اور ایئر پورٹ پر خصوصی ویب سائٹ کی رسائی سے اب ویزہ کی چیکنگ و ترسیل کا نظام آسان اور شفاف ہو گیا ہے۔  بدعنوانیت کے عنصر  کو  دور حاضر کی اس جدید تکنیک نے کسی حد تک کم کر دیا ہے۔  ائیر لائنز کی ٹکٹنگ بھی آن لائن کر دی گئی ، مختلف بین الاقوامی کوریئر کمپنیاں اپنی آن لائن ویب سائت سے ترسیل شدہ پارسل کی معلومات ٹراکنگ نمبر کی بدولت وقتاً فوقتاً دیتی ہیں جس سے پارسل جس جس ملک کے چیکنگ پروسز سے گزرتہ ہے اس  کا مالک انٹرنٹ  سےآگاہ رہتا ہے۔  تعلیمی اداروں اورسرکاری بورڈز میں امتحانات کے نتائج کی تشہر آن لائن کر دی گئی اور دنیا میں کئی سے بھی ایک طالب علم کا ریکارڈ حاصل کیا جا سکتا ہے۔  دنیا میں انتخابات میں اپنا ووٹ کاسٹ کرنے کے لئے بھی اس آن لائن تکنیک سے فائدہ اُٹھایا جارہا ہے جسے بائیو میٹرک سسٹم کہتے ہیں۔  اس کی ایک بہترین مثال اپنے پڑوسی ملک بھارت کی دی جاسکتی ہے۔  جہاں پر اس نظام سے ووٹنگ کا طریقہ آسان اور شفاف بنا دیا گیا ہے۔



سماٹ فون جن میں سیمسنگ، آئی فون، کیو موبائل، نوکیا موبائل قابل ذکر ہیں سے سوشل نیٹ ورک کھولے جاسکتے ہیں جن سے سوشل میڈیا کی اہیمت اور بھی بڑھ گئی ہے۔  2008 سے سوشل میڈیا فیس بک دوسرے سوشل میڈیا پر راج کر رہی ہے۔  دنیا میں اس میڈیا کے ایکٹو اکاؤنٹ ایک ارب سے تجاوز کر گئے ہیں۔  جس نے دنیا میں عوام کو آسانی سے معلومات تک آسان اور سستی رسائی مل رہی ہے۔   اس کی اہیمت کو مد نظر رکھتے ہوئے اب تاجروں ، صنعت کاروں ، سیاست دانوں، مختلف مذاہب کے مفکرین و علماء ، اخبارات ، الیکٹرانک میڈیا کے چینلز فیس بک کومعلومات دینے کا آسان ذریعہ سمجھتے ہیں۔  اس میں کوئی شک نہیں کہ انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا نے عوامی سوچ میں بدلاؤ لایا ہے۔  منفی اور مثبت پہلو تو ازل سے ہیں۔ انٹرنیٹ کے بھی اسی طرح دو رخ ہیں لیکن اب انٹرنیٹ کے عام و مقبول ہو جانے کی وجہ سے ملک کا ایک بڑا طبقہ اسے مثبت انداز میں استعمال کر رہا ہے جو خوش آہن امرہے۔  مصر کی تحریک جس میں حسنی مبارک کے تیس سالہ دور کا اختیام ہوا اس تحریک میں جان ڈالنے کے لئے انٹرنیٹ اور فیس بک کو ہی عوامی رائے ہموار بنانے کا ذریعہ بنایا گیا۔



صدر اوباما کے آغاز سیاست میں مقبولیت کا سہرا بھی انٹرنیٹ اور ٹیویڑ کو جاتا ہے جس نے اُسے امریکہ کے مسند اعلیٰ پر فائز کیا۔  فیس بک اور ٹیوٹر پر سیاست دان عوامی سوالوں کے جوابات دیتے عار محسوس نہیں کرتے  اور اپنے موقف کو پر دلیل طریقے سے بیان کر کے عوام کو قائل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔


پاکستان میں بھی اب سوشل میڈیا کے ذریعے خصوصاً فیس بک سے راہے عامہ کی ذہین سازی کی جارہی ہے۔  حکومتی پارٹی پاکستان میں ترقیاتی کاموں  اور اپنے مستقبل کے لائحہ عمل کا بتا رہی ہے ، مفکرین اور دانشور  ملک  میں بگڑتی ہوئے معاشرتی اور معاشی حالات کا ذکر کر رہے ہیں اور روک تھام کے لئے تجاویز دے رہے ہیں۔ حکومتی عسکری تنظیمں ملک میں اپنی پھرپور دفاہی صلاحیتوں کا ذکر کر رہے ہیں مذہبی تنظیمں نظریات کی تعلیم کی پرچار کرہی ہیں۔ 




سب کچھ اپنی جگہ، سوشل میڈیا  عوام کو بیدار کر رہاہے ، اس نے ساری دنیا کے لوگوں کو قریب آنے ایک دوسرے کے خیالات کو سمجھنے میں آسانی دی ہے۔ ۔ اسی کی بدولت اب اس ملک کا باسی اندورنی و بیرونی خطروں سے باخبر ہو رہا ہے، سچ اور چھوٹ کا فرق اور اچھے پرے کی تمیز کا فرق اسے شعوری طاقت دے رہا ہے  وہ وقت دور نہیں کہ اس ملک کے عوام اپنے  چناؤ سے   ایک ایسے حکمران کو لانے میں کامیاب ہو جائے گے جو اس ملک کے انتظامی امور کی ذمہ داری دیانت داری، مخلص اور قابلیت سے انجام دیے گا اور ملک کو ابتر حالات کے گرداب سے نکال سکےگا۔


 



160