احسان دانش کے حالات زندگی اور ان کے کلام کی خصوصیات

Posted on at


احسان دانش کا نرہلہ ضلع مظفر گڑھ ( یوپے)کے ایک غریب گھرانے 1914ءمیں ہوا۔ والد کا نام قاضی دانش علی تھا۔ غربت کی وجہ سے احسان باقاعدہ تعلیم حاصل نہ کر سکے۔ لیکن ذاتی مطالعے سے اس نے بہت کچھ سیکھا۔ غربت کی وجہ احسان باقاعدہ تعلیم حاصل نہ کر سکے۔ محنت مزدوری کرتے تھے۔ ساری زندگی حلال کی روزی پر گزارہ کیا۔ یہی مزدوری کرنے والا آگے چل کر اپنے غورو فکر اور مطالعہ کی وجہ ایک عظیم شاعر اور صاحب علم بن گئے۔ احسان دانش نے اپنی زندگی کی آب بیتی  " جہان دانش" میں اپنی زندگی کے سارے حالات و واقعات ساری تفصیل کے ساتھ بیان کیے۔ ان کے کلام کے کئی مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ جن میں نوائے کارگر، چراغاں، آتش خاموش، بادہ نو، تغیر فطرت اور زخم مرہم شامل ہیں۔ اس پرگو اور قادر الکلام شاعر کا انتقال 1982ء میں ہوا۔

چونکہ احسان دانش خود بھی ایک مزدور رہ چکے تھے اس لیے وہ مزدوروں، کسانوں اور دیگر ستم رسیدہ لوگوں کو خواب کی غفلت سے جگانے کے لیے حریت کی بلندیوں سے آواز دیتے تھے۔

انہوں نے دور حاضر کی تاجرانہ ذہنیت پر بھر پور طنز کیا۔ انھیں نے مزدوروں میں خود شناسی اور غیرت کی روح پھونکنے کی کوشش کی۔ ان کے تمام موضوعات کسی نہ کسی طرح مزدور اور کسان سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کی بے بسی پر کڑھتے ہیں:

اس  مشینی  دور  میں   درکار   ہیں   پتھر   کے  جسم

کارخانوں  کے دھویں  میں  حل  ہوا   جاتا  ہوں   میں

شیش  محلوں  سے  ہیں  اپنے  گھروندے  ہیں  عزیز

ان  میں  انسان  کا   لہو   صرف  چراغاں  تو  نہیں

احسان کا مشاہدہ مشیق اور وہ لفظوں میں ایسی مصوری کرتے ہیں کہ سامعین اور ناظرین کو اسی فضا میں گم کر دیتے ہیں۔ احسان ایک وسیع نظر شاعر ہیں۔ ان کا نصب العین ستم رسیدہ لوگوں کی ترجمانی اور مناظر فطرت کی نکاشی ہے۔  جب وہ مناظر فطرت کی تصویر کشی کرتے ہیں تو ان کی نظر فطرت کی نظر اورکلام ایک الہام معلوم ہونے لگتا ہے:

پھولوں  کے  کٹوروں  میں  یہ  صبہائے   بہاراں

رقاصہ   موسم   کی  کھنکتی   ہوئی   چھاگل

خورشید   پہ   باریک  سی   گلرنگ  سے  بدلی

جبریل   کی  پیشانئی  ضو  ریز   پہ   صندل

احسان کی بھی حفیظ اور اختر شیرانی کی طرح ترنم اور نغمگی  کے شاعر ہیں۔ لیکن وہ شباب کے نغمے نہیں گاتے بلکہ غریب عوام کی کیفیات کا ذکر کرتے ہیں۔ اس لیے اس کے ترنم میں ایک نوحہ کا سا انداز پایا جاتا ہے  پھر بھی ان کے ہاں ترنم اور موسیقیت بھرپور انداز میں ملتی ہے؎

فلک  پہ  مشرق  کے آئینے  میں سحرکھڑی مسکرارہی ہے

جماہیاں لے رہی ہےکلیاں  صبا  کرشمے  دکھا  رہی ہے

اس ہجوم  جمال و بوس و کنار  جو اک  حسین  دیوی

سحر کی خاموش  ساعتوں  کو کلام کرنا سیکھا  رہی ہے۔



About the author

shahzad-ahmed-6415

I am a student of Bsc Agricultural scinece .I am from Pakistan. I belong to Haripur.

Subscribe 0
160