بابل شہر تاریخی مسلم کتابوں اور قرآن مجید کی آیات کی روشنی میں

Posted on at


بابل شہر تاریخی مسلم کتابوں اور قرآن مجید کی آیات کی روشنی میں


حضرت ادریس علیہ السلام کی قوم کا تعلق شہر بابل سے تھا۔ یہ قوم بڑی بدعمال تھی۔ جس کا ذکر قرآن مجید کی سورۃ البقراہ کی آیت نمبر 101 میں ہے۔ جس کا ترجمہ اس طرح ہے۔


اور اُن (ہزلیات) کے پیچھے لگ گئے جو سلیمان علیہ اسلام کے دور میں شیاطین پڑھا کرتے تھے۔ سلیمان علیہ اسلام مطلق کفر کی بات نہیں کی ، بلکہ شیطان ہی کفر کرتے تھے، لوگوں کو جادو سکھاتے تھےاور اٗن باتوں کے پیچھے ( پڑ گئے) جو شہر بابل میں ہاروت و ماروت پر اُتری تھی۔


ہاروت و ماروت دو فرشتے تھے جو شہر بابل میں آئے تھے ۔  اس قصے کا ذکر قرآن مجید میں موجود ہے۔ اس کے علاوہ تفسیر عزیزی وغیرہ میں بھی ملتا ہے۔  جسے کچھ یوں بیان کیا گیا ہے۔



فرشتوں نے حضرت آدمؑ کی تخلیق پر اعتراز کیا تھا، فرشتوں کی نظر میں انسان دنیا میں خون خرابہ، ظلم و ستم اور انتشار کا سبب بنے گا بداعمالیہ کرے گا۔ جب حضرت ادریسؑ کے دور میں اُن کی قوم حد درجے کی بدکردار ہو گئی تو فرشتوں نے وہی بات دوبارہ اللہ کے حضور میں بیان کی۔  یاد رہئے حضرت ادریسؑ کی قوم شہر بابل میں آباد تھی جس کے کھنٹرات عراق کے شہر بغدار کےمضافات میں ملے ہیں۔ جو اسلامی کی تاریخ سے کئی صدیاں پہلے تباہ ہو گیا تھا۔ بعض مورخین اس کی تاریخ چار ہزار سال پرانی بتاتے ہیں۔ اور اس کی آبادی اس وقت پانچ لاکھ بتاتے ہیں۔



فرشتوں نے دوبارہ زمیں پر انسان کی خلافت کی مخالفت کی۔ جس پر اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو بتایا اگر شہوت اور غصہ تم فرشتوں میں بھی ڈال دیا جائے تم بھی اسی طرح بن جاؤ جس طرح انسان ہیں۔ اس منصب کے لئے ہاروت و ماروت کو چنا گیا جو نہایت پرہیزگار تھے۔  اُن میں غصہ و شہوت جیسے عیب بھی ڈال دیئے گے اور شہر بابل میں اتار دیئے گئے۔   کہتے ہیں ہاروت و ماروت ان عیبوں کی وجہ سے اس شہر کے لوگوں کے ماحول میں ڈھل گئے اور جادو جیسی بری لعنت کی بیناد ڈال کر گئے۔ جو لوگوں میں کفر کی باتیں پھیلاتے تھے اور لوگوں کو جادو سیکھاتے تھے۔





یہ سارے واقعات بابل سے وابسطہ ہیں۔ جس کا ذکر قرآن مجید میں چودہ سو سال پہلے کیا گیا۔ بابل شہر بغداد سے 55 میل کے فاصلے پر دریائے فرات کے کنارے چار ہزار قبل مسیح میں آباد تھا ۔ یہ اپنے دور کا پر جلال شہر تھا۔ اس کے قرب و جوائر میں باغات کا شمار دنیا کے عجائبات میں کیا جاتا ہے۔  اسی شہر کا بتاتے ہیں جس میں نمرود نے حضرت ابراھیم ؑ کر آگ میں پھیکا تھا۔  اس شہر کی تاریخ انبیاء کے حوالے سے معروف ہے۔ حضرت سیلمانؑ، حضرت ابراھیم ؑ، حضرت ادریسؑ ، ہاروت و ماروت کے واقعات اسی شہر سے جڑے ہیں۔


 



160