قبولیت دُعا کا کیا مطلب ہے؟

Posted on at


قبولیت دُعا کا کیا مطلب ہے؟

یہ بات کہہ دینا کہ اللہ تو چاہے تو مغفرت فرما دے اور تو چاہے تو یہ نعمت دے دے بالکل بے جا تقاضا ہے۔ ہر چیز کا وجود محض اس کے ارادے سے ہے وہ جو چاہے کرے اس کو مجبور کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ دعا کرنے والے کو تو اپنی رغبت پوری طرح سے ظاہر کرنا چاہئے اور مضبوطی سے سوال کرنا چاہئے کہ اے اللہ مجھے فلاں نعمت ضرور دے یا میرا مقصد پورا فرمادے۔ اگر مانگنے والا اپنے آپ کو محتاج نہیں سمجھتا اور اللہ سے مانگنے میں بھی بے نیازی برت رہا ہے جو تکبر کی شان ہے حالنکہ دعا میں ظاہر و باطن سے عاجزی ، حاجت مندی اور اپنی ذات ظاہر کرنے کی ضرورت ہے۔

اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہیں وہ سب کچھ کر سکتے ہیں۔۔ آسمان و زمین اور ان کے اندر باہر کے خزانے سب اسی کے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ارادے سے پل بھر میں سب کچھ ہو سکتا ہے صرف (ہوجا) فرما دینے سے سب کچھ ہو جاتا ہے۔ اس کے لئے کسی چیز کا دین اور کسی بھی چیز کا پیدا کردینا کوئی بھاری چیز نہیں ہے لہذا پوری رغبت اور اس یقین کے ساتھ دعا کریں کہ میرا مقصد ضرور پورا ہوگا اور وہ جب دے گا تو اپنی مشیت اور ارادے سے ہی دے گا۔ اس سے زبردستی کوئی کچھ نہیں لے سکتا۔

حضرت سلمان ؓ سے روایت ہے کہ حضورﷺ  نے ارشاد فرمایا کہ بلا شبہ تمہارارب شرم والا ہے۔ کریم ہے جب اس کا بندہ دعا کرنے کے لئے ہاتھ اٹھاتا ہے تو ان کو خالی ہاتھ واپس کرتا ہوا شرماتا ہے۔

حضرت عمرؓ سے روایت ہے کہ حضرت رسول اکرم ﷺ جب دعا میں ہاتھ اٹھاتے تھے تو ان کو جب تک (ختم دعا کے بعد) چہرہ پر ہاتھ نہ پھیر لیتے تھے(نیچے) نہیں کرتے تھے۔

 ان دونوں حدیثوں میں دعا کا ایک اہم ادب بتایا ہے اور وہ یہ ہے کہ دعا کے لئے دونوں ہاتھ اٹھائے جائیں اور ختم دعا کے بعد دونوں ہاتھ منہ پر پھیر لئے جائیں یعنی باطنی طور پر دل سے جو دعا ہورہی ہے اس کے ساتھ ظاہری اعضاء بھی شریک سوال ہو جائیں۔ دونوں ہاتھ پھیلانا فقیر کی جھولی کی طرح ہے۔ جس میں حاجت مندی کا پورا اظہار ہو تا ہے۔

قبو لیت دعا کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ جو مانگا وہی مل بھی جائے کبھی تو منہ مانگی مراد پوری ہو جاتی ہے اور کبھی یہ ہوتا ہے کہ مراد تو پوری نہیں ہوتی بلکہ آنے والی مصیبت ٹل جاتی ہے۔

کن لوگوں کی دعا زیادہ قبول ہوتی ہے؟

حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرمﷺ  نے ارشاد فرمایا کہ تین شخص ایسے ہیں جن کی دعا رد نہیں کی جاتی یعنی ضرور قبول ہوتی ہے۔

۔روزہ دار کی دعا جس وقت وہ افطار کرتا ہے

 امام عادل یعنی اس مسلمان صاحب اقتدار کی دعا جو شریعت کے مطابق چلتا ہو اور انصاف کرتا ہو اور اس ضمن میں شک و شبہ کی گنجائش نہ ہو۔

۔ مظلوم کی دعا کو اللہ جل شانہ بادلوں کے اوپر اٹھا لیتے ہیں اور اس کے لئے آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور پروردگار عالم کا ارشاد ہوتا ہے کہ مین ضرور تیری مدد کروں گا اگرچہ کچھ وقت (گزرنے) کے بعد۔

کن لوگوں کی دعا پوری ںہیں ہوتی؟

حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ حضور اقدس ﷺ  نے ارشاد فرمایا کہ بے شک اللہ پاک ہے اور پاک ہی مال اور قول و عمل فرماتا ہے۔ پھر فرمایا کہ بلاشبہ (حلال کھانے کے بارے میں) اللہ جل شانہ نے پیخمبروں کو جو حکم دیا وہی مومنین کو دیا ہے۔ پیغمبروں کو خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اے ایمان والو ! جو لمبا سفر کر رہا ہو اس کے بال بکھرے ہوئے ہیں جس پر گردو غبار اٹا ہوا اور وہ آسمان کی طرف ہاتھ پھیلائے یا رب یارب کہ کر دعا کرتا ہوا اور یہ شخص دعا تو کر رہا ہے اور حال یہ ہے کہ اس کا کھانا حرام ہے پینا حرام ہے اور پہننا بھی۔ ان حالات کی وجہ سے اس کی دعا کیونکر قبول ہوگی۔

دل کو خوب حاضر کر کے دعا کی جائے۔ غافل کی دعا قطعی بے ادبی ہے۔ آج کل ہم لوگ دعا ئیں کرتے ہیں اور اس وقت دل کہیں اور ہوتا ہے۔ دعا کرتے وقت دل حاضر نہیں ہوتا۔ ذرا دعا کی طرح دعا کی جائے تو پھر ثمرات بھی ظاہر ہوں گے۔

اللہ جل شانہ ہم کو خلوص دل سے دعا کرنے کی توفیق دے اور ہماری دعاؤں کو قبول فرمائے۔ (آمین)۔



About the author

muhammad-haneef-khan

I am Muhammad Haneef Khan I am Administration Officer in Pakistan Public School & College, K.T.S, Haripur.

Subscribe 0
160