انسان کے اپنے ہاتھوں پیدا کردے حالات

Posted on at


جب انسان کسی کام کو شوقیہ طور پر کر رہا ہو تو اسے بڑا لطف محسوس ہوتا ہے مگر پھر یکا یک وہی کام پریشان کن ہو جاتا ہے، صرف اس لیے کہ شوق کسی پر بوجھ نہیں ہوتا جبکہ شوق کو پیشہ بنا لیا جائے تو ذہن پر دباؤ بڑھ جاتا ہے۔ جب ہم اپنے کسی کام  میں دل ہی نہیں لگاتے تو وہ محض بوجھ ہو کر رہ جاتا ہے۔ ایسی کسی بھی صورت حال میں ہم صرف پریشان ہو سکتے ہیں اور ہوتے رہتے ہیں۔ اس طرح ایک طرف تو کام کا معیار گرنے لگتا ہے اور دوسری طرف نتائج کی خرابی مزید پریشانیوں کا باعث بننے لگتی ہے جبکہ جسمانی اور نفسیاتی صحت بھی متاثر ہوتی ہے۔ پھر ہم رفتہ رفتہ ہر چیز کا شکوہ کرنے لگتے ہیں، دوسروں سے عدم تعاون کی شکایت رہنے لگتی ہے اور جب انسان صرف شکوے کرنے لگے تو اس کے لیے نتائج بھی خراب سے خراب تر ہوتے چلے جاتے ہیں اور اگلے شکوے کرنے والوں کی کارکردگی میں کوئی مناسب تبدیلی رونما نہیں ہو پاتی بلکہ وہ اپنے کاموں کو مشکل سے مشکل تر کرتے چلے جاتے ہیں۔


 


ہم کبھی اس بات پر غور نہیں کرتے کہ عام طور پر جن مسائل کا ہم رونا رو رہے ہوتے ہیں ان میں سے بیشتر ہمارے اپنے پیدا کردہ ہوتے ہیں۔ ہم یہ سوچنے کی زحمت نہیں کرتے کہ جس ملازمت یا پیشے کا ہم گلہ کر رہے ہیں وہ کس کا منتخب کیا ہوا ہے؟ کسی کام کو انجام دینے کے لیے ہم نے جس ڈیڈ لائن کا تعین کیا ہے، جو ہم پر بری طرح سوار ہے وہ کس نے طے کیا تھا اور اس پر رضامندی کس نے ظاہر کی تھی؟ جواب ہمیشہ یہی ملے گا کہ خود نے۔۔۔۔ کسی بھی کام کو برا یا اپنے اوپر بوجھ تصور کر کے ساری دنیا سے شکوہ اور گلہ کرنے سے قبل ہمیں سوچنا چاہیے کہ اس کام کو اور اس سے منسلک پورے ماحول کو ہم نے خود ہی منتخب کیا تھا۔ موسم کا بدلاؤ ہمارے اختیار میں نہیں ہے لیکن ہم روز و شب موسم کی تبدیلی کا گلہ کرتے رہتے ہیں مگر ذرا سا سوچیں تو اندازہ ہو گا کہ موسم کے بارے میں نظریہ بدل لینے سے ہم خود کو کسی حد تک پرسکون محسوس کرنے لگتے ہیں اور ہمارے لیے موسم کا لطف لینا ممکن ہو جاتا ہے۔


 


ہر انسان اپنی خواہش یا ضرورت کے مطابق اپنے ماحول کو تبدیل کر سکتا ہے، وہ چاہے تو اپنے ادھورے کاموں کی تکمیل کے لیے کسی کی مدد طلب کر سکتا ہے، وہ چاہے تو اپنا شعبہ تبدیل کر سکتا ہے جو کہ مشکل کام ضرور ہے لیکن کسی بھی حیثیت میں ناممکن نہیں کیونکہ تھوڑی سی محنت کے بعد شعبے کی تبدیلی ممکن ہو سکتی ہے۔ اگر انسان اپنے ہر عمل اور نتیجے کے لیے خود کو ہی ذمہ دار تسلیم کرے تو اصلاح احوال کی صورت میں زیادہ آسانی سے نکل سکتی ہے۔ ایک مرتبہ یہ تعین کر لیا جائے کہ جو کچھ بھی آپ کے ساتھ ہوتا آیا ہے یا ہو رہا ہے اس کے لیے صرف آپ حتمی طور پر ذمہ دار ہیں تو کوئی سبب نہیں کہ آپ معاملات کو درست کرنے کی طرف مائل نہ ہوں، اسی طرح آپ مستقبل کے لیے بہتر منصوبہ بندی کرنے کی پوزیشن میں آ سکیں گے اور مجموعی حالات میں بہتری کی صورت حال واضح ہونے لگے گی۔


 


لوگ عموماً بہتری کی سعی کرنے کے بجائے منفی سوچوں کے تحت اپنی زندگی کو مزید اُلجھاؤ کا شکار کرتے چلے جاتے ہیں۔ ہر معاملے میں خود کو حالات کا ہدف قرار دینے کے بجائے اگر آپ خود کو بہتری کے لیے آمادہ کریں تو معاملات کو بخوبی سلجھایا جا سکتا ہے۔ یاد رکھیں کہ جو لوگ ہر معاملے میں حتمی ذمہ داری کو قبول کرتے ہیں وہ اپنی اصلاح زیادہ بہتر طور پر کر سکتے ہیں۔ اپنے کام، پیشے اور مصروفیت میں دلچسپی لیں اور کسی بھی حالت میں خود کو کمتر یا بے وقعت محسوس نہ کریں کیونکہ اپنی نگاہ میں بلند ہو کر ہی آپ دوسروں کی نظروں میں بھی بلند ہو سکیں گے۔ جب آپ اپنی حیثیت کا تعین کریں گے تب ہی دوسروں پر یہ حیثیت آشکار ہو سکے گی۔  




About the author

Asmi-love

I am blogger at filmannex and i am very happy because it is a matter of pride for me that i am a part of filmannex.

Subscribe 0
160