ماضی کی غفلتیں اور نظریہ پاکستان

Posted on at


ماضی کی غفلتیں اور نظریہ پاکستان 


علم و شعور سے آگہی غلامیت سے نجات کا پہلا زینہ ہے۔  علم کی وجہ سے دنیا میں تہذیب اور تمدن بلند خیالات کو نئی نمو ملی ۔ دنیا میں اسلام کی روشنی علم کی مرہون ہوئی اور اس کی اہمیت سے ہمارے پیغمبرﷺ خوب آگا تھے۔ علم کی بنیاد زبان ہے  اور زبان کی ترقی کا سہرا ادب پر ہے۔  جنتا زیادہ معاشرہ تہذیب و تمدن سے آشکار ہو گا زبان اتنی ہی ترقی یافتہ شکل میں ہو گی۔  آزاد قومیں کی زبانیں دنیا میں اپنا مقام رکھتی ہیں۔  غلامیت میں ڈھلی قومیں اپنی زبانیں ہونے کے باوجود آقاؤں کی زبانیں بولنے میں فخر کرتی ہیں اور انہی کے علم و ادب سے مزین کتب کو پڑھ کر مستفید ہوتی ہیں۔ اپنے آپ کو اُسی رنگ میں ڈھالے کی کوشش کرتی ہیں۔ بجائے اس کے اُن کتب کو ترجمان کی مدد سے اپنی زبان میں شائع کروا لیں یہ زحمت گوارہ نہیں کرتیں۔  غلامیت سے آزادی بہت بڑا عطیہ خداوندی ہے اس کی قدر کی اہلیت و قابلیت  ابھی تک ہمارے اندر موجود نہیں۔



 



ایک خطہ زمین کی آزادی حاصل کرنے کا پس پردہ مقصد اپنی ہی سرزمین پر اپنے لوگوں کا قانون ، زبان ، تہذیب ، ثقافت اور علمی اداروں کا قیام ہے ۔  آزادی کے حصول کے لئے قربانیوں کی اونچی فصلیں سر کرنی پڑتی ہیں جو ہمارے زعما و بزرگوں کی کاوشوں سے ممکن ہوا۔  آزادی حقیقتاً عطیہ خداوندی ہے  اور اس کی قدر اور حصول کا مقصد  اور تقاضا آزاد عوام کی خواہشات کا احترام کرتے ہوئے تمام علمی و ادبی اداروں میں  اور سرکاری اور نیم سرکای اداروں میں اکثریتی آبادی میں  بولی،سمجھنے  جانے والی زبان اُردو کو رائج کیا جائے  ۔  غیر ملکی زبانوں میں پڑھائی جانے والی کتب کو ترجمانوں کی مدد سے اُردو زبان میں منتقل کر دیا جائے۔



اس حقیقت کا جھٹلایا نہیں جا سکتا زبان کا اثر ایک قوم کی تعمیر میں کس قدر اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔  ہمارے ملک پر حکومت کرنے والے اکثر ارباب اختیار اور اشرافیہ کا تعلق غلامیت کے دور کے  مراعات یافتہ طبقے  سے ہےجو اس کو برقرار رکھنے کے لئے کوشان ہے  اور انہی لوگوں نے ہمارے اُوپر وہی غلامیت کی چادر اُوڑھی ہوئی ہے جو فرنگی دور میں تھی۔  آنکھوں کے ہونے کے باوجود ہم اندھے ہیں۔   ابھی تک ہم سن رہے ہیں کہ ہمارے ملک کی خواندگی کی شرح بہت کم ہے ، مردوں میں پچاس سے ساتھ فیصد اور  خواتین کی بیس  سے تیس فیصد اور دونوں کی اوسط پچاس سے پجپن فیصد۔  خواندگی کا حصول اداروں میں ترویج زبان اور پڑھائے جانے والے اسلوب  سے وابسطہ ہے۔



ملک میں طبقاتی نظام تعلیم  کئی طریقوں سے بلاواسطہ مختلف زبانوں کے رائج الوقت نصاب میں دخل کی وجہ سے ہماری آبادی میں ناخوندگی کا سبب ہے۔  جن میں انگلش ، عربی ، قابل ذکر ہیں ۔ آقاؤں کے مراعات یافتہ طبقے اپنی آل اولاد کو کیمبرج اور آکسفوڈ یونیورسٹیوں میں نسل در نسل جدید سے دیں رہے ہیں اور وہی اقلیتی گرو ہمارے ملک میں سیاہ و سفید کا اجارہ دار ہے۔  ملک میں سب سے سستے تعلیم  و علم  کے حصول کا ذریعہ مدرسہ ہے جہاں خالصتاً تعلیم اُردو میں دی جاتی ہے۔  اس کے بعد سرکاری تعلیمی اداریں جہاں پر بچے عدم توجہ کے ماحول میں تعلیم حاصل کرکے کسی خاطر خواہ روشن مستقبل سے دور رہتے ہیں۔  نجی تعلیمی اداریں بھاری بھر فیسوں سے جدید تعلیم کی ملکی ضروریات تو پوری کر رہے ہیں جہاں سے فارغ و التحصیل طلباء و طلبات ملک و بیرون ملک اپنا روشن مسقبل دیکھتے ہیں۔



ہمارے ملک میں آزادی کے بعد اگر دو کاموں کو پایہ تکمیل تک پہنچا دیا جاتا تو یقیناً ملک کا باسی ملک کے اندر اور اپنے گھر میں باروزگار اور خوشحال زندگی گزارتا۔


نمبر ایک : اگر ملک کے ارباب اختیار وسائل  سے مالا مال  قدرتی خزانے کو بروئے کار لا کر جن میں قابل ذکر کوئلہ ، تیل، پانی  اور جدید بندرگاؤں کا قیام تھا جو افغانستان، چین اور وسطی ایشیائی  ممالک کو ٹرانزٹ ٹریڈ کی سہولیات دیں کر راہداری کی شکل میں آمدن کا وسیع ذریعہ تھا لایا جاتا تو ملک کی ساری آبادی کو باعزت و پروقار کاروبار اور روزگار مل سکتا تھا۔




دوسرے نمبر پر ملک میں نظام تعلیم کو اپنی قومی زبان اُردو میں پرائمری سطح سے اعلیٰ تعلیم تک لاگو کر دیا جاتا اور قومی ادارروں عدلیہ ، مقننہ  اور انتظامیہ میں نافذ العمل ہوتا جس سے ملک میں یقیناً خواندگی کی شرح سو فیصد ہو جاتی، ملک تہذیب و تمدن اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کا گڑ ہوتا۔


اِن دو چیزوں کا اگر نفاذ عمل میں لا دیا جاتا آج ہمارا ملک ترقی و خوشحالی کی اعلیٰ منزل پر ہوتا اور عطیہ خداوندی آزادی کے حصول کا بھی پورا حق ادا ہو جاتا۔


 



160