فلم نائر اور سائنس فِکشن؟ ۱۹۵۳ کی فینٹوم فرام سپیس (خلا کا بھوت)

Posted on at

This post is also available in:

 فلموں کی مختلف قسموں کو مکس اپ کرنا فلمسازی میں کوئی انہوتی چیز نہیں ہے اور سائنس فِکشن اور فلم نائر کا ملاپ ہوا بھی ہے اور امید ہے پھر بھی ہوگا۔ بلیڈ رنر ایک رعب دار مثال ہے تیس سال پہلے مختلف قسموں کے اسی طرح کے ملاپ کیا ایک مظاہرہ  ۱۹۵۳ کی فلم فینٹوم فرام سپیس میں ہوا۔ بس یہ بات مانتا ہوں کہ اس فلم میں کسی بھی چیز کو فلم نائر کہنا مبالغہ ہوگا لیکن اس میں ایک ٹیکٹ(ہوشیاری) فلم نائر اور اسی دور کے پولیس ڈراموں سے لیا گیا ہے۔ پولیس کی طرح کا طریقہ کار ڈاکو مینٹری بیان کے ساتھ فینٹوم فرام سپیس کا آغاز سورج کے اوپر حرکت کرتے بادلوں سے ہوتا ہے پھر بادلوں مین بجلی کی چمک کی کانٹے دار لکیریں دکھائی دیتی ہے اور پھر خطرناک موسیقی سنائی دیتی ہے اور پھر ۱۹۵۰ کے دور کی سائنس فکشن اور ڈراونی فلموں کا جانا پہچانا آغاز ہے۔ لیکن اس کے بعد ایل لمبا بیان شروع ہوتا ہے۔ جو آنے والی کہانی کو بیان کرتا ہے ڈی۔سی کی کسی خفیہ فائل کے بیان کی طرح۔ پھر بڑی تعداد میں ہوائی جہاز ۔ بہری جہاز ۔ ریڈار سٹیشن دکھائی دیتے ہیں اور الاسکا میں یو۔ایف۔او کے دکھائی دینے کا بیان ہوتا ہے۔ جس کی ڈاکو منٹری رپورٹ کے وقت اور مقام بلندی اور رفتار دکھائی جاتی ہے۔ پھر رکاوٹ کی ایک کوشش ناکام ہوتی ہے اور پھر یو۔ایف۔او سانٹا مونیکا کے گرد کسی جگہ غائب ہو جاتا ہے۔ سوئچ بورڈ دیوانہ وار چلتے ہیں۔ سرکاری ایجنٹس تیزی سے ادھر اُدھر جاتے ہیں کلاسیکل گاڑیاں جن کے بڑے بڑے اینٹینا ہیں۔ یہ سب بہت سنجیدگی سے دکھایا جاتا ہے

   

فینٹوم فرام سپیس کا ڈائریکٹر اور پروڈیوسر ڈبلیو۔لی۔وائلڈ تھا۔ اور اِسے بِل اینر اور ویلڈر کے بیٹے مائلز ویلڈر نے لکھا تھا (جوکہ پچاس کی دہائی کی فلم بنانے والوں مین تین کو جوڑی تھی)۔ یہ ایک بار دیکھنے کیلئے اچھی فلم ہے اس فلم سے منسلک کوئی بڑا نام نہیں تھا۔ اور اس فلم میں بہت سے مضحکہ خیز باتیں ہیں۔ مثلاً لوگ کیسے ریڈیو ایکٹو جیزوں کو چھوتے ہیں اور ان کے پاس ربڑ کے دستانوں کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا؟ اس بات پر سوچیں۔ وہ ایک ہی کمرے میں آخر زندہ کیسے رہتے ہیں؟ فلموں میں اس قسم کی چیزیں تلاش کرنے میں اپنا مزہ ہوتا ہے اسلئے میں باقی سب آپ کیلئے چھوڑتا ہوں لیکن میں نے یہ ضرور سوچا کہ سپیس (خلائی) ہیلمنٹ ٹھنڈا تھا۔ اس نے مجھے ڈارک نائٹ رائزز کے این کی یاد دلائی جس کے خدوخال ٹیوبز جیسے ہوتے ہیں۔ اور اِس فلم نے مجھے ناروے کی ڈاکو منٹری ٹرول ہنٹر کی یاد دلائی جس میں غیر زمینی چیزوں کو اتنی حقیقی سنجیدگی سے دکھایا جاتا ہے کہ اس پر حقیقی ہونے کا گمان ہوتا ہے۔ اِس فلم کو ضرور حاصل کریں اِس سے پہلے کہ اِس کا رِی میک بنے (اور اس کا ڈائریکٹر برطانوی ڈائریکٹر نیل مارشل ہوگا)۔

   

شاہد فینٹوم فرام سپیس اور بے شمار بی موویز میں ایسے لمحات آئیں جن پر ہمیں ہنسی آئے جب فلم بنانے والے سنجیدہ ہونے کا ارادہ کرتے ہیں (جیسے ایلین کا پولیس اسکیچ) اور ہم مذاق اڑا ئیں وقتاً فوقتاً اس بھونڈی قسم کے بکواس کا جو دکھایا جاتا ہے جس تھیٹر کی بنیادی اصولوں کی بھی کمی ہوتی ہے لیکن اس دور کی بی موویز تقریباً ساری کی ساری حقیقی معنوں میں خود مختار سٹوڈیوز ہوا کرتی ہیں۔ جن کے بجٹ بڑے سٹوڈیوز کے مقابلے میں بہت کم ہوتے تھے۔شاہد میں فلموں کا بہت زیادہ رسیاہ ہوں اور پرانی فلموں کا یقیناً۔ موویز جس دور میں بنتی تھیں اس دور کے بارے میں معلومات بھی دیتی تھیں۔ یہ اجنبی جو خلا باز/ غوطہ خور کے لباس میں ہوتا ہے جو بہت زیادہ مقنا طیسی اور ریڈیو ایکٹو لباس ہوتا ہے ظاہر ہوتا ہے اور لوگ اس پر حملہ کردیتے ہیں۔ یہ ایک پر امن اجنبی سے ملاقات کا بہترین موقع ہو سکتا تھا لیکن دکھائی دینے والا انسان ہمیں نقصان پہنچانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ پچاس کی دہائی مین اور بہت سی بیماریاں تھیں لیکن نا معلوم کا خوف اِن سب میں زیادہ مشہور تھا۔

مزید بی موویز اور ٹائم کیپسولز دیکھئے باکسٹر مارٹن ویب ٹی وی پر

http://www.filmannex.com/webtv/baxter_martin /blog-posts میرے پچھلے بلاگز پڑھیں 



About the author

Aiman-Habib

My name is Aiman ,And iam a student in KPK University.And now I am bloger at filmannex..AND feeling great to join filmannex.

Subscribe 0
160