قومی اداروں میں جدید اصلاحات کا نفاذ ناگزیر ہے

Posted on at


قومی اداروں میں جدید اصلاحات کا نفاذ ناگزیر ہے۔

دنیا میں کسی قوم کے بلند معیار زندگی اور رہن سہن اور ترقی کو جانچنے کا الہ اُس ملک کے عوام کی صحت اور تعلیم سے لگایا جاتا ہے۔  کیونکہ جہاں کمیونٹی کی سطح پر کھیل کے میدان اور ہسپتال اور اچھے تعلیمی اداریں قائم ہوں وہاں معاشرے میں عوام کا طرز زندگی اور اخلاقیات کا میعار بلند ہو تا ہے۔  لیکن پاکستانی معاشرہ بد قسمتی سے صحت و تعلیم کے معاملے میں ہمیشہ شدید عدم توجہ کا شکار رہا ہے۔ صحت کے حوالے سے اصلاحات ناگزیر ہیں  اگر حکومت سنجیدگی کا مظاہرہ کرے تو چند محلوں کو اکٹھا کر کے اس میں ایک کھیل کا میدان اور بی ایج یو یا بیسک ہیلتھ یونٹ قائم کر دیں اور ساتھ ساتھ ہر ماہ دو دفعہ اچھی صحت  کے لئے شعور و اگہی دلانے کے لئے محلوں کی سطح پر سیمینار کا انعقاد کرئے تو یقیناً ہمارے معاشروں میں انقلاب برپا ہو سکتا ہے۔ جہاں محلوں کی سطح پر کھیل کے میدان اور ہسپتال ہوں وہی پر سمینار منعقد کرنے کے لئے ہال قائم ہوں جہاں پر محلوں کے عوام کو اکٹھا کیا جا سکے۔  ایسے اجتعمات کو باقائدہ طور پر سنجیدگی سے عمل لائے جائے جس سے درپردہ مسائل اور درپیش مسائل پر بحث سے ان مسائل کو قابو کرنے کے لئے تدابیر دی جا سکے۔  شرط یہ ہے اس کی سرپرستی اور ذمہ داری سرکاری سطح پر کی جائے۔

 

کھیل کے میدان محلوں کی سطح پر بنائے جائے جنہے منی سپوڑ کمپلکس کی درجہ بندی دی جائے۔  اگر محلوں اور یونینز میں کھیلوں کے لئے میدان ، کوچز اور ان ڈور کھیلوں کے لئے بڑے ہال بنا دیئے جائے تو یقیناً    صحت کے مطالق  درپیش مسائل کو قابو میں لایا جاسکتا ہے اور بیماریوں سے چھٹکارہ مل سکتا ہے۔  انہی کھیل کے میدانوں سے ہمارے ملک کو اچھے بین الاقوامی کھلاڑی میسر آ سکتے ہیں۔  کھیلوں کی اہمیت اجاگر کرنے کے لئے ہر ماہ ٹورنمنٹ کا انعقاد کیا جائے جو کھلاڑیوں کی  حوصلہ افزائی کے ساتھ معاشرے میں صحت افزا ماحول کے فروغ میں بھی مددگار ہو گا۔

 

ہمارے اکثر دانشور اور تجزیہ نگارعوام کو درپیش مسائل و مصائب کا سبب   آبادی میں اضافے کو بتاتے ہیں۔  ہوسکتا ہے گھر کے ماہانہ بجٹ نئے فرد کے اضافے کے ساتھ متاثر ہوتے ہوں لیکن قطہ نظر اس کے وسائل کو بروئے کار لایا جائے۔  جیسے زرعی ملک ہونے کے ناطے ملک میں جدید مشینری کا استعمال اور ترخم بیجوں کا استعمال عمل میں لایا جائے جس سے پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ ممکن ہوسکے۔ یا پھر وہ بنجر زمینیں جو ابھی تک غیر کاشت شدہ ہے نہروں کا نظام قائم کر کے وہاں پر زرخیزی لائی جائے۔   آبادی میں اضافے کے ساتھ ضروریات زندگی کا بڑھ جانا فطری ہے لیکن عوام ضروریات زندگی کو پورا کرنا حکومت کی ذمہ داریوں میں آتا ہے۔  

زراعی اصلاحات میں سب سے پہلے پانی کے بندوبست کے لئے بڑے آبی ذخائر کا بنانا ضروری ہے۔  لیکن اس بنیادی مسلے   کو حل کرنے کے لئے ہمشہ غفلت بھرتی گئی۔  پانی کی پاکستان میں کوئی کمی نہیں۔ پاکستان کو ایک اندازے کے مطابق ہر سال اپنی زرعی زمینوں کے لئے چھ کروڑ کیوبک کیوسک پانی چاہیے جبکہ پانی جو ہر سال ہمیں دستیاب ہوتا ہے وہ دس  سے بارہ کروڑ کیوبک کیوسک ہے ،  ملک کے چھوٹے بڑے آبی ذخائر میں پانی کی کھپت ستر لاکھ کیوبک کیوسک سے زیادہ نہیں۔  ہمارا کروڑوں کیوسک پانی بغیر استعمال کئے ہر سال دریا برد ہو جاتا ہے۔  اگر بڑے آبی ذخائر کا قیام عمل میں لایا جائے تو زراعت کی ترقی کے ساتھ اس سے وابستہ صنعتوں کا قیام عمل میں لایا جا سکتا ہے۔   بڑے آبی ذخائر سے مون سون کے موسم میں بڑے آبی بہاؤ اور رہلے کو روکا جاسکتا ہے جو میدانی علاقوں میں سیلابی پانی کی شکل اختیار کرکے ہر سال لاکھوں ایکٹر زرعی زمین کو نقصان پہنچاتا ہے۔

جنگلات کے حوالے سے اصلاحات ناگزیر ہیں۔  ایک ملک کے اندر جنگلات کے حصہ تیس فیصد ہونا چاہیے لیکن بدقسمتی سے ملک میں بے دریغ جنگلات کی کٹائی سے  ملک میں جنگلات صرف تین فیصد بچے ہیں جن کی حالت بھی ناگفتہ با ہے۔  جنگلات میں صوبہ خیبر پختون خواہ کا حصہ ملکی سطح پر سب سے زیادہ ہے جو تقریباً بیس فیصد ہے۔  انگریز دور میں جنگلات کی کٹائی کی روک تھام کے لئے بڑے سخت قوانیں نافذ تھے جن پر بڑی سختی سے عمل کیا جاتا ہے۔ ان قوانین کے توڑنے کی سخت سزائیں دی جاتی تھی جنگلات میں مال مویشی چرانے کی سخت ممانعت تھی ، جنگلات کی نگہبانی کے لئے سپاہی اور افسران کا محکمہ تھا  اورہر ضلع میں گھوڑوں کا استبل تھا ۔

 جنگلات کے اندر باقائدہ گھوڑوں کے لئے راستے بنائے گئے تھے جہاں دن رات گھوڑسوار سپاہی اور پیادہ سپاہی پڑولنگ کرتے تھے جن کے آثار آج بھی نتھایا گلی ٹھندیانی اور کاغان کے جنگلات میں ملتے ہیں جو ابھی بھی پیدل راہ گیروں کے راستے ہیں۔  محکمیں کے تمام اہکاروں پر گھوڑسواری کی تربیت لازم تھی جنہیں جنگلات کی حفاظت پر معمور کیا جاتا۔ بدقسمتی سے اس میں مذید بہتر اصلاحات لانے کے   جنگلات کی اُس انگریز دور کی اصلاحات کو بھی ختم کر دیا گیا۔  حکومت کو محکمہ جنگلات سے سالانہ مالیہ ایک ارب روپے سے زائد وصول ہوتا ہے  بجائے اس پیسے کو جنگلات کی حفاظت  اور جنگلات کے بچاؤ کے طریقوں پر صرف کیا جائے  حکومتی شاہ خرچیوں پر نزر کر دیئے جاتے ہیں اگر انگریز دور کے جنگلات کی حفاظت کے لئے گھوڑ سواروں کے لئے راستے ناپید اور پرانے ہو چکے ہیں تو اس کے لئے متبادل  ذرائع جنگلات کی حفاظت کی پڑرولنگ کے لئے جنگلات کے اندر پختہ روڑ بنائے جائے اور پڑورلنگ کے لئے باقدہ پولیس کا محکمہ بنایا جائے۔  ہر سال شجر کاری  مہم کو حصہ بنایا جائے اور عوام میں جنگلات کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے علاقے کی سطح پر سیمنار منعقد کئے جائے۔  جنگلات ماحول کو ماحولیاتی آلودگی سے بچاؤ کے علاوہ پہاڑوں سے مٹی کے کٹاؤ کو بھی روکتے ہیں۔  یقیناً صاف ستھری فضا ہمارے معاشرے اور صحت کے لئے لازمی ہے۔ ملکی اداوروں میں وقت اور آبادی میں اضافے  کے ساتھ ساتھ اصلاحات کر دی جائے  تو عوام پیش آمدہ اَن گنت مسائل سے بچ سکتے ہے۔

پاکستانی عوام کے لئے مواصلات کے شعبے میں  نئی رائج اصلاحات  خوش آیند ہیں کہ ٹیلی کمیونیکیشن میں اصلاحات کا سلسلہ جاری ہے۔ پہلے موبائل فون نے ذرائع ابلاغ میں انقلاب برپا کیا اور اب تھری جی اور فور جی سے اس موبائل کے استعمال میں اور بہتری کے امکانات ہیں۔  ٹیلی کیمونیکیشن کی اس جدید مروجہ اصلاح کی افادیت کا وقت کے ساتھ ساتھ علم ہو گا کیونکہ پاکستان میں  اس نئی متعارف شدہ ٹیکنالوجی کا تعلق جدید اور سمارٹ  موبائل فون سے ہے جون جوں سمارٹ موبائل فون کی تعداد میں اضافہ ہو گا اسی طرح نئی متعارف شدہ تھری  جی اور فور جی ٹیکنالوجی کی افادیت کا پتہ چلے گا۔ اس کے ساتھ نئی موبائل سموں کے اجرا کے لئے بائیو  میڑک سسٹم لایا جارہا  جو صارف کو ئنی سم کا اجرا انگھوڑوں کے نشان کی تصدیق کے بعد جاری کی جائے گی جس سے معاشرے کو لاقانونیت اور دہشت گردی جیسے افریت سے نجات مل سکے گی۔ 

عام انتخابات اور بلدیاتی انتخابات میں عوامی نمائندوں کے چناؤ کے لئے  شفافیت لانے کےلئے جدید اصلاحات کی ضرورت ہے۔  جس کا الیکشن کیمشن آف پاکستان نے حالیہ دنوں میں  الیکشن کے نظام میں بہتری لانے کے لئے نئی اصلاحات لانے کا فیصلہ کیا جو جمہوریت کے ذریعے سچے ایماندار لوگوں کو عوامی نمائندگی اور قیادت لانے کے لئے انقلابی قدم ہے۔  جس میں ووٹ ڈالنے کے لئے الیکڑانک مشین جسے بائیو میڑک سسٹم کہتے ہیں پہلی دفعہ پاکستان میں متعارف  کرائی جائی گی۔  جو پولنگ کے دوران جعلی  ووٹنگ اور دھادلی کی روک تھام کے لئے اہم قدم ہے۔  اس کے علاوہ مردم شماری کر کے نئی حلقہ بندیاں کی جائے گی ، بیرون ملک پاکستانی عوام کو بھی جدید اصلاحات کے نفاذ سے حق راہے دینے کا اختیار دیا جائے گا۔  عام انتخابات میں جدید اصلاحات سے صحیح نمائندوں کا چناؤ ملک و قوم و عوام کی زندگیوں پر گہرے نقوش چھوڑے گا۔

پاکستان میں رہائشی کالونیوں کا قیام اور انہیں جدید خطوط پر استوار کرنے کی شدید ضرورت ہے۔  ترقی یافتہ ممالک سے نئے رہاشئی منصوبوں کے ماڈل لئے جاسکتے ہیں ، کچھ نجی سطح پر ملک کے تعمیراتی اداریں انہی ضوابط کو اپنائے ہوئے ہیں جن میں بحرایہ ٹاؤن کا نام قابل ذکر ہے لیکن سب کچھ سامنے ہونے کے باوجود حکومت اس مسلے کو سنجیدگی سے نہیں لے رہہی۔ 

 

اس کے علاوہ رہائشی علاقوں سے کوڑا کرکٹ کو اٹھانے اور اسے حفاظان صحت کے اصولوں کے مطابق تلف کر نے لئے قدم نہیں اٹھا رہی اور آبادیوں کے نزدیک ہی کوڑا کرکٹ کو آگ لگا دی جاتی جسے سے کاربن مونو اکسائیڈ جیسی مضر گیسوں کا اخراج آبادیوں میں دمہ اور سانس کی بیماریوں کا موجب بن رہا ہے۔ دنیا میں آبادیوں کے لئے گھروں کے باہر دو یا تین طرح کے کوڑا دان رکھے گئے ہیں جن اشیاء کو ری سائکل کیا جاسکتا ہے جن میں پلاسٹک کی بوتلے ، پلاسٹک کے لفافے ریپرز وغیرہ ہوتے ہیں ان کے لئے علیحدہ کوڑہ دان رکھا گیا ہے اور وہ اشیا جو زمین میں کچھ دنوں کے اندر سرہیت کر جاتی ہے ان کے لئے علیحدہ کوڑا دان۔  یہ طریقہ ماحولیاتی آلودگی کی روک تھام کے لئے بڑا مفید ثابت ہو رہا ہے۔

 

تعلیم ، صحت ، رہائش،آلودگی سے پاک ماحول،  زراعت و جنگلات اور انتخابات کے نظام کو اگر اصلاحات کر کے جدید خطور پر استوار کر دیا جائے تو یقیناً ہمارا ملک اپنے قیام کا مقصد حقیقی  معنوں میں پا لے گا اور عوام کی زندگی ایک صحت مند تعلیم یافتہ صاف ستھرے  معاشرے میں خوشحالی سے پروان چڑئے گی۔

 

 



160