خدا کا کرنا ایسا ہوا جب میں نے میٹرک کا امتحان پاس کیا تو مجھے اسلامیہ کالج پشاور میں داخلہ مل گیا اور ساتھ میں ہاسٹل سیٹ بھی مل گئی اور یہ بھی بتایا گیا کہ اورئینٹل ہاسٹل میں چھے بندوں پر مشرمل کمرہ نمبر ۲۰ میں رہنا ہو گا لیکن مجھے کیا پتا تھا کہ ایک کمرے میں چھے بندوں کے چھے بستر، چھے میز کرسیاں زیادہ ہوتی ہیں یا نہیں۔ اسی طرح چھے جوڑے جوتے، ہینگر اور سب سب چیزوں کے چھے چھے کا حساب لگا لیں۔ میں نے تو صرف داخلہ لیا اور سیدھا واپس گاؤ ں روانہ ہو گیا۔
اب میں اسلامیہ کالج کا طالب علم بن چکا تھا۔ لیکن کالج کھلنے میں ابھی کافی دن تھے۔ اب میں اس سوچ کے ساتھ ۲۷ اگست کالج کھلنے کے دن کا انتظار کرتا رہا کالج کیسا ہو گا وہاں کے پروفیسر کیسے ہونگے۔ اور ان سب سے بڑھ کر یہ کہ میرا ہاسٹل کیسا ہو گا۔ ۲۷ اگست کو میں تقریباً ۸ بجے گھر سے روانہ ہوا۔ اور یہی دعا کرتا رہا کہ بخیریت ہاسٹل پہنچ جاوں۔ تقریباٍ ۱۱ بجے کالج کے گیٹ پر پہنچا۔ کالج کے اندر جا کر ہاسٹلوں کی قطار مین اورئینٹل ہاسٹل ڈھونڈنے لگا۔ دل ہی دل میں ہاسٹل کا نقشہ کھینچ رہا تھا۔ کہ ہاسٹل کا ایک بڑا لوہے کا بنا ہوا مظبوط گیٹ ہو گا۔ ہاسٹل کے سامنے خوبصورت پھول لگے ہونگے۔ اور پتہ نہیں کیا کیا ہو گا۔ لیکن جونہی تھوڑی دیر بعد میں لکڑی کے بنے ہوۓ ایک پرانے گیٹ پر پہنچا۔
جسکے اوپرایک پتھر پر انگریزی میں اورئینٹل ہاسٹل لکھا ہوا تھا۔ تو یہ نام پڑھتے ہی میرے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ کیونکہ میری تمام امیدوں پر پانی پھر چکا تھا۔ پھر بھی خود ہی اپن دل کو تسلی دیتے ہوۓ کہا۔ کہ شائد اسکا بڑا گیٹ کسی دوسری طرف ہو ہو سکتا ہے یہ کوئی چور دروازہ ہو۔ دل بڑا کر کے اسی دروازے سے ہاسٹل میں داخل ہوۓ۔ ہاسٹل میں داخل ہوتے ہی یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ ہاسٹل میں خوبصورت کیاریوں میں رنگا رنگ پھول لگے ہوۓ ہیں۔ سر سبز درخت اور اسکی خاموش فضا میں چہچہاتے پرندے، شاداب چمن اور اسکے بیچوں بیچ لگا ہوا خوبصورت فوارہ ، تپتی دھوپ میں ٹھنڈے ساۓ۔ میری روح کو ایک سکون سا ملنے لگا۔