کاش ہم ایک قوم کا روپ دھار دسکتے

Posted on at



بڑھاپے میں جب آپ کس قسم کی عملی تحریک سے لا تعلق ہوا اور جسمانی اعضا کمزور ہونا شروع ہو گے تو اپنے کتب خانے میں بیٹھ کر مطالعہ اور کالم نویسی کو وقت دینا شروع کیا ۔نفس مضمون تلاش کرنے میں بے پناہ اذیت کا سامناہے کیونکہ معاشرہ ،انسانیت ،سول سوسائٹی ،سچ بولنے ،برداشت کرنے اور حقائق کو تسلیم کرنے سے گریزکر رہی ہے جس کی وجہ سے لمحہ بہ لمحہ یہ ملک دریا کہ اُس کنارے کی مانند ہوتا جا رہا ہے جسے تندوتیز لہریں آہستہ آہستہ کاٹتے چلی جا رہی ہیں جو کسی وقت بھی ایک خوفناک امتحان کے لیے لیڈ سلائیڈ ہونے سے اس کا نام و نشان مٹ سکتا ہے ۔ہم حقیقت ،معاشرے ،کلچر ،تعلیم ،زبان ،سیاست ،قیادت کے ایک بڑے فقدان اور گرداب میں ہچکولے کھا رہے ہیںاگر آپ اس ریاست کے آغاز و انجام پر اپنی نظر ڈالیںتو اس کا صاحب الزاتے شہری کانپ اُٹھتا ہے لاکھوں انسانوں کے قتل کے بعد جن میں بوڑھے ،جوان ،اور خواتین کا لہو شامل ہو کر اس ملک کا نقشہ مرتب ہوا اور یہ قتل عام محض مذہب کے نام پر کیا گیا حالانکہ دنیا کا کوئی مذہب خون خرابہ نہیں چاہتا اور انسانیت کا درس دیتا ہے اس عظیم قربانی کے بعد پاکستان معرض وجود میں آیا لیکن آج تک نہ اس کے مسائل ختم ہوئے اور نہ غربت دور ہو سکی اور نہ ہی انسانیت کو استحکام نصیب ہوا اور نہ ہی ملک میں ایک فعال سٹم کو لا یا جا سکاتحریک کے سمندر میں غذدزن ہوئے چونکہ ہم مذہب میں بے عمل ہیں اس لیے کسی بھی جانب خیر و برکت اور اُمیدختم ہوئی ہے اور یہ زمین بچارے گنا ہ توڑ معاشرے کی وجہ سے ہم پر تنگ ہوتی جا رہی ہے بات بڑی صاف ہے ہم نے یہ ملک اللہ کے نام پر حاصل کیا تھا لیکن ہم نے اس قادر مطلق کو فراموش کر دیا اور قدم قدم پر وضع داری ،شرافت اور دین کو اپنی نا قابل رفتار قرار دے کر سوسائٹی کو نام نہاد لبرل ازم کی جانب لےکے جانا شروع کر دیا ہم نے اسلام کو اپنی اصولوں کو یکسر موخر ر کرنے کی ٹھان لی اوراگر اس تجربے کی بنا پر ہم اپنے مستقبل کے بارے میں کوئی رائے قائم کریں تو وہ بوگس اور مخددش ہو گی ۔سحر ضبح اُمید نظر نہیں آتی ایک ہنگامہ پائے ہوئے ہم نے دین کے نام پر اپنی اپنی ہٹیاں کھول کر نفرت کا بازار گرم کر رکھا ہے کفرو کافری اور مذاری کے سرٹیفیکٹ جاری کرنا معمول بن گیا ہے اس ملک کا کوئی بھی محب وطن انسان اپنی مسجدوں سے بچ نہیں پایا ہم نے قائداعظم سے لے کر علامہ اقبال ،لیاقت علی خان اور ذولفقار علی بھٹو کفراور غذداری کے فتوں سے نوازلیکن ایک پلیٹ فارم ایک امہ کی تعبیر اور تلقین نہ دے سکے ہم نے اسلام کے کئی حصے قائم کئے برادری ازم کی نسبت قائم کی دین فروشی کے مراکز بنائے تعلیمی نصاب سے اسلامی تعلیمات کو نکال باہر کیا۔لباس میں ،کردار میں ،زبان میں حتی کہ زندگی کے روز مرہ کے معمولات میں مزرا تندیعیت ہو گے تعجب ہے کہ مسلمان نوع مسلمانی کا شکاری ہے ۔ضبح کچھ کہتے ہیں شام کو کچھ اور تکیہ کلام ہوتا ہے کبھی ہم جمہوریت کے نام پر تحریک چلاتے ہیں اور کبھی آمریت اور ملٹری ڈرموکریسی کے نعرے لگانا شروع کر دیتے ہیںحالانکہ ہمارا کوئی بھی ادارہ جن میں جودیشری ،اسبلشمنٹ فوجی امریت یا قومی منصوبہ بندی کرنے والے پاکستان کی تباہی کی دچارج شیٹ سے بچ سکتے ہیں قائد اعظم کے اصول کی پیروی کرنے والی یہی قوم جس نے ایک مرینہ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کو ایک فوج آمر کے مقابلے میںشکت دے کر خوب حق ادا کیا ستم ظریفی یہ کہ اس ملک میں ہم ایک طر ف کس کو تاج سلطانی پہناتے ہیں اور دوسرے لمحے اس کے ذلت کے ہار د ڈالنا شروع ہو جاتے ہیں یہ ایک تاریکی ہے مایوسی ہے جو ہر طرف منڈلا رہی ہے سچ یہ ہے کہ مشرقی پاکستان کی علحیدگی کے بعدنظریہ پاکستان ختم ہو گیا ہے محض ہوندکاری کی جا رہی ہے ہماری زراعت ناکام ہو چکی ہے اور اب تو ٹماٹر پیاز بھی بھارت سے برآمد کر رہے ہیں قرضوں میں یہ ملک غر قاب ہو رہا ہے گالیاں ہم یہود و نصار کو دیتے ہیں لیکن قرض اُن سے لے کر اُن کے معاشی طفیلی بن گے عالم یہ ہے کہ اس وقت ملک کی 60فیصد آبادی غربت کے اندکس سے نیچے رہ رہی ہے اور ان کی فی کس آمدن صر ف دو ڈالر ہے ۔
اور وہ بھی عوام پر خرچ کرنے کے بجائے ہمارے امراکے پاس جاتاہے پاکستان ایک سوالیہ ملک بن چکا ہے اور یہ فوجی آمروں ،جرنیلوں ،سرمایہ داروں اور سیاستدانوں کے لیے سبز چراگاہ بن گیا ہے تمام ادارے ختم ہو گے ہیں ہر جانب لوٹ کی دھوم مچی ہوئی ہے اللہ اس سر زمین پر سر پائی ،جسم فروشی ،غریب کی عزت کی پامالی معمولات بن چکے ہیں۔
نظام جمہوریت اور نظام عدل میں بھی سرمایہ داری کی حکومت نظر آتی ہے اور یہ عمل بھی سرمائے کے بغیر ممکن نہیں اس لیے علامہ اقبال نے جمہوری طرز حکومت کو رد کرے ہوئے کہا۔
جمہوریت ایک طرز حکومت ہے جس میں بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے ۔
کچھ عرصے سے صحافت پر ہمیں بڑا ناز تھا اب پاکستان میں جرنلزم بالغ اور جوان ہو گیا ہے آج کل اس پر جو سر بھٹول اور کردار کشی کی جا رہی ہے اس پر پوری دنیا ہم پر ہنس رہی ہے یہ مسلم نہیں کہ جنگ ٹیلی ویژن کی آمد دتحلیق پاکستان میں ہے علمی ادبی خدمات کے علاوہ اس کی سیاسی خدمات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہم اُس پر غذداری اور اسلامی شفار کی خلاف ورزی کے الزام لگا دیے ہیں میں اس حثییت میں نہیں کہ اُس کے اس عمل پر کوئی فیصلہ کن رائے دے سکوںلیکن ایک بات ضرور کہوں گا کہ صاحب رائے لوگ سامنے آئیں فوجی آمریت کی گود میں پروش پانے والے عناصر نے ایک وقت تک اہل مشرقی پاکستان کو غذدار کہا حالانکہ وہاں کی 100فیصد آبادی نے پاکستان کو ووٹ دیا ۔
ہم نے اُن کا جائز حق نہ دیا ہر میدان میں اُنہیں پسماندہ رکھا ان کے انتخابات جیتنے سے ہم نے انا کا مسلہ بنا دیا اقتدار دینے سے انکار کر دیا ۔ بچاری افواج نے وہاں حملہ کر دیا ایک لاکھ مسلمان بچیوں کی آبرورزی کی ظلم جب حد سے بڑھ جاتا ہے تو اس کا انجام بھی عبرت ناک ہو جاتا ہے آخری میں وہاں ناکام ہو کر بین الاقومی فوج سے معافی مانگ لی ہماری رائے میں کوئی وزن نہ رہا اور ہماری مثال یہ ہے کہ گنگا گے تو کنگا رام اور ممبا گے تو ممبا داس۔
مجھے یاد پڑتا ہے کہ ایک مرتبہ باغ کے مقام پر دو بڑے عالم دین جوکہ مکتبہ بریلوی اور دیوبندی سے تعلق رکھتے تھے اپنے اپنے پروگرام کے مطابق ایک دو دن کے وقفے کے بعد سیرت کے جلسوں میں تشریف لائے پہلے جلسہ مکتبہ بریلوی کے زیر اہتمام منعقد ہوا جس میں پاکستان کے کے مشہور خطیب صابزادہ فیض الحسن صاحب مہمان خصوصی تھے جلسے میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی ضابزادہ صاحب نے اپنے ملک کی بھر پور ترجمانی کی اور مکتبہ دیوبندی کے نظریات پر خاصی تنقید کر ڈالی لوگ جھوم جھوم کر نعرے لگا رہے تھے اور عشق رسول کی غماری کر رہے تھے۔
دو دن بعد دیوبندوں اس جلسے کے بعد ایک مشہور عالم دین مولانا غلام اللہ خان کو دعوت دی
اور سیرت کے اس جلسے میں بے پناہ لوگوں نے شرکت کی اور جلسہ اسی پنڈال میں کیا گیا مولانا غلام اللہ صاحب نے صاحبزادہ صاحب کی تقریر پر سخت تنقید کی اور ان کے علم و فہم کو شرک سے تعبیر کیا جلسہ میں زبردست نعرہ بازی ہو رہی تھی صاحبزادہ فیض ا لحسن مردہ باد کے نعرے لگ رہے تھے صاحبزادہ صاحب ابھی باغ سے واپس نہیں گئے تھے اور وہیں جلسہ گاہ قریب ہی ایک جگہ ٹھہرے ہوئے تھے اور یہ جلسہ سن رہے تھے آپ نے کسی دوست سے کہا کہ کل میرا یہاں جلسہ تھا اور یہی لوگ تھےاور میرے نعرے لگا رہے تھے آج اسی جگہ وہی لوگ میرے مردہ باد کے نعرے لگا رہے ہیں اللہ ان پر رحم کرے اس سب کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہیکہ ایک ن ہم فوجی آمریت کے خلاف تحریک چلاتے ہیں اور جب سیاسی نقشہ تبدیل ہو جاتا ہے تو پہر فوج کو یاد کرنا شروع کر دیتے ہیں کبھی مشرف کو غدار کہتے ہیں اور کبھی اس کی حب ا لوطنی کے سر ٹیفیکیٹ جاری کرنا شروع کر دیتے ہیں کسی اللہ کے بندے نے یہ نہیں سوچا کہ 32 سالہ فوجی آمریت میں آزادی رائے اور میڈیا پر پہرےببٹھا دئے گئے تھے صحافیوں کو کوڑے مارے گئے تھے ملک کے عظیم لیڈر بھٹو کا جوڈیشل مرڈر کروایا گیا لیکن ہم نے کبھی اس المناک داستان پر فوجی جرنیلوں کا ٹرائل نہیں کیا اور ستم ظریفی یہ کہ اس وقت کے کمانڈر انچیف اور صدر پاکستان کو پورے فوجی اعزاز کے ساتھ دفنایا گیا اور جب تک وہ زندہ رہا اسے دو پنشنوں سے نوازا گیا جنرل نیازی کو مشرقی پاکستان میں ذلت آمیز شکست کے انعام میں پنشن دی گئی جو وہ اب تک لے رہا ہے حمودا لرحمان کمیشن آج تک منظر عام پر نہ آ سکی جبکہ اس کے کچھ حصے ہندوستان میں شائع ہوئے باقی رپورٹ اب تک سامنے نہ آ سکی آج پاکستانی عوام کو محراب و منبر کے وارثوں نے دو فرقوں میں تقسیم کر کے شیعہ کافر کے نعرے لگوا کر ملک میں قتل عام شروع ر رکھا ہے اور یوں جب طالبان کمزور ہوتے ہیں تو فرقہ واریت کو ہوا دی جاتی ہے خدا کے بندو کل کی بات ہے کہ دینی جماعتوں نےMMA بنائی تھی انتخابات میں جسے فتح نصیب ہوئی پختونخواہ میں جس کی حکومت بنی اس میں تمام مسالک دیو بندی بریلوی اہلحدیث شیعہ سب موجود تھے شاہ احمد نورانی امامت کراتے باقی سب ان کے پیچھے نماز پڑھتے اس وقت کسی کو خیال نہ آیا کہ شیعہ کافر ہے 1973 کے آئین میں بھی شیعہ فرقے کو مسلمان تسلیم کیا گیا ہے شکوہ تو یہ ہیکہ پاکستانی عوام کی یاداشت کمزور ہو چکی ہے انھیں کل کی بات یاد نہیں رہتی اور اب کہیں سپاہ صحابہ اور کہیں سپاہ محمد ﷺ جیسی مسلح تنظیمیں بنا کر مسلما ن مسلمان کا گلا کاٹ رہا ہے خدا نخواستہ کیا حضورﷺ کی ذات مبارکہ کسی تفریق کا باعث تھی جس کی وجہ سے ان دو طبقات نے آپ کے رفقاءکے دفاع میں سپاہ صحابہ یا آپ کی شخصیت کے دفا ع میں سپاہ محمد بنا دی عالم اسلام کی اس تباہی میں براہ راست یہو دو نصاری۱ کا ہاتھ ہے جو ہماری سادگی لا لچ ناتونی اور نالائقی کا فائدہ اٹھا کرہم کو ایک دوسرے سے لڑا کر خود تماشہ دیکھ رہے ہیں ہمارے پڑوس یں ہارا ازلی دشمن بھارت ہے جسے آج بھی تقسیم ہند کا دکھ ہے جب بھی اسے موقع ملتا ہے ہمیں نقصان ہی پہنچاتا ہے لیکن بھارت اب ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں کھڑا ہونے والا ہے حالیہ انتخابات میں ایک ارب بیس کروڑ لوگوں نے ووٹ ڈالے انتہائی شفاف انتخابات ہوئے کانگرس جیسی بڑی جماعت کو شکست فاش ہوئی مقوضہ کشمیر میں نیشنل کانفرنس جیسی بڑی جماعت بھی شکست فاش کھا گئی تینو ں پار لیمنٹ کے ممبر بی جے پی سے منتخب ہوئے کل کی بات ہے ہمارے ہاں انتخابات ہوئے نواز شریف کو اکثریت ملی لیکن ایک سال کے اندر ہی دھاندلی کا شور مچ گیا اور نواز شریف کو اقتدار سے محروم کرنے کے لئے الائنس بنایا جا رہا ہے جو ڈیشری اور الیکشن کمیشن پر بھی تنقید کی جا رہی ہے جب اپنے اور بھارت کے نظام کا تقابل کرتے ہیں پہر ہمیں ہندوستان کی جمہوریت اور ترقی کے مقابلے میں ملک کی گراوٹ نظر آتی ہے آنے والے وقت میں شائد ہم تقسیم ہند کو ایک مفروضہ قرار دے کر نظریہ پاکستان سے ہی محرف ہو جائیں اور عوا م اپنے آباوءاجداد کے اس فیصلے کو شک کی نگاہ سے دیکھیں بھارت میں زبردست زمینی اصلاحات کے باعث وہاں کی گلی کا آدمی ایوان بالا اور ایوان زیریں کی نمائندگی کر رہا ہے زمینی اصلاحات نے بھارت کو زبردست سیاسی شعور سے نوازا ہے وہاں آا اور غلام کا کوئی تصور نہیں ہے جب ہم مودی کو کٹر ہندو نواز کہتے ہیں تو اپنا چہرہ بھی دیکھیں یہاں مسلمان مسلمان کو قتل کر رہا ہے



پاکستان کے اندر حلیہ طالبان سے جنگ میں ہم نے خود کو امریکہ کے ہاتھوں فروخت کیا اس کے عوض پچاس ہزار پاکستانیوں کو شہید کروایا اور دکھ کی بات یہ ہیکہ ہماری دینی جماعتوں اور ایجنسیوں نے امریکہ سے پندرہ لاکھ ڈالر نقد وصول کئے اور جہاد کا جھوٹا نعرہ لگایا ہم یہاں اپنی مساجد کی بے حرمتی کرتے ہیں لیکن بابری مسجد کی شہادت پر مظاہرے کرتے ہیں کس قدر بے ہودہ مذاق ہے جس سے یہ قوم گزر رہی ہے کوئی بھی پہلو ایسا نہیں کہ جسے ہم دنیا کے سامنے پیش کر سکیں امریکی مبصرین کی رائے بن رہی ہیکہ پاکستان کو ایک بار پھر فوجی انقلاب کا خطرہ ہے اور اگر یہ انقلاب آیا تو نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری خدا نخواستہ شائد یہ ملک کے لئے آخری تجربہ ہومذاق تو یہ ہیکہ ہم نے پاکستان کو مختلف صوبوں کلچر اور زبانوں میں تقسیم کر دیا ہے اور دوسری طرف ریاست کے ڈیڑھ کروڑ مسلمانوں کو مقدر کے حوالے کر دیا ہے پاکستان کا وزیر اعظم اس قدر کمزور ہیکہ وہ بھارت کے وزیر اعظم کے سامنے کشمیریوں کی بات تک نہیں کر سکا وہ ہمیں دہشت گردی کا طعنہ دیتی ہے اور دوسری طرف مقوضہ کشمیر میں اسے جو دہشت گردی ہو رہی ہے وہ نظر نہیں آتی ہم نے اپنی نالائقی کی وجہ سے حق خود ارادیت کے مقصد کو تباہ کر دیا اور ہم نے حق خود ارادیت کے بجائے مسئلہ کو دو طرفہ بنا دیا پاکستان کی کوئی کشمیر پالیسی نہیں اگر آزاد حکومت کو تسلیم کر لیا جاتا تو آج ہم کشمیر پر بہتر مﺅقف دے سکتے تھے لیکن جب تک پاکستان میں عام آدمی کی قیادت ان کے اندر سے سامنے نہیں آئے گی انسان کے ہاتھوں انسان کا استحصال جاری رہے گا بد قسمتی سے پاکستان کو ایک وحدت کے بجائے مختلف قومیتوں سے گزارا گیا آج پاکستان میں شریعیت کے نام پر انقلاب صوبوں میں احساس محرومی کی بات نہ کی جاتی تو ایک مضبوط پاکستان کشمیر کی آزادی کا ضامن بن سکتا تھا ہم ایک ایٹمی پاور ہیں اور صرف ہمارے باہمی نفاق اور فوجی آمریت نے ہمارے ضمیر اور خدداری کو متاثر کیا ہے اس وجہ سے ہماری اب تک کوئی رائے نہ بن سکی ہم نے اس ملک میں کئی نظام اپنائے صدارتی نظام ،جمہوری نظام وغیر ہ سے لوٹ کر پھر پالیمانی نظام کی طرف آئے لیکن اس پر بھی تاجروں اور جاگہرداروں نے قبضہ کر لیا ہے اس ملک کے اصل وارث ابھی خوبدیدا ہیں یہ جاگیں گے تو یہ ملک بچے گا آنے والے بجٹ میں اس ملک کے غریبوں پر 85ارب روپے کے ٹیکس لگنے والے ہیں اور ہماری ہڈیاں پیش پیش کر یہ ٹیکس وصول کیاجائے گا اور ہم اس چور قیادت کے گناہوں کی سزا بھگتے رہیں گے اس گرداب سے نکلنے کا وقت نظر نہیں آ رہا دکھ یہ ہے کہ پاکستان کی سٹیٹ پر اُ ن لوگوں کا قبضہ ہے جو پاکستان کے بہی خواہ نہیں پاکستان کا سب سے بڑا مسلہ یہ ہے کہ یہاں عوام کے اندار سے ان کی قیادت پیدا نہیں ہوسکی سندھ کے ایک لیڈر جی ایم سید نے قائداعظم سے کہا کہ پاکستان میں سب سے پہلے زرعی اصلاعات نافذ کریں تو قاید نے جواب دیا یہ مناسب وقت نہیںابھی تو صرف مولوی مخالفت کر رہا ہے اگر یہ تجویز سامنے آ گئی تو جاگیر دار طبقہ بھی مخالف ہو جائے گاالبتہ جاگیر دار طبقہ جو انگریز کا ٹو ڈی تھامعاشی اعتبار سے مظبوط تھااس لیے قائداعظم نے بڑے دکھ سے کہا کہ گاندھی اس لیے پرُ سکون سوتا ہے کہ اس کی قوم جاگ رہی ہے میں اس لیے پریشان ہوں اور جاگ رہا ہوں کہ میری قوم سو رہی ہے اور پھر یہ کہا کہ میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں جو آج بھی انگریز نواز اور یہود نواز ہیں اس قدر مقام عبرت ہے کہ پاکستان کے حکمران اپنی تہذیب و تمدن اور معاشرت سے نا آشناہیںہندوستان کا وزیر اعظم کھڈر کے کپڑے اور واسکٹ میں پاکستان کے وزیر اعظم سے ملتا ہے لیکن پاکستان کا وزیر اعظم غلامی کے لباس میں اُس سے ملتا ہے ۔ہم اب تک غلامی سے نہیں نکل سکے جبکہ ہندوستان کے پاس فطری لیڈر شپ ہے موتی لال نہرو کے بیٹے کے کپڑے فرانس سے دھل کر آتے تھے جب سیاست میں داخل ہوا تو ساری عمر کھڈر پہناوہی بود و باش ہندوستان کے معاشرے میں آج بھی نظر آ رہی ہے لیکن ہمارے زوما معربی نواز ہیں اور ان میں مغربیت نظر آتی ہے ۔
نہ خداہی ملا نہ وصال صنم
نہ ادھرکے رہے نہ اُدھر کے
کے مصداق ہم گمرا ہ ہو کر زوال پذیر ہیں ۔
جو قوم اپنا ملک خود کاٹ دے بھائی بھائی سے نفرت کرے اور اسلام سے نفرت کرے تو کیا اُس سے بھیانک کوئی معاشر ہو سکتاہے اس کی سب سے بڑی وجہ خدا کی ناراضگی ہے ۔ہم نے خدا کو راضی کیا اور یہ خطرہ درپیش ہوتا جا رہا ہے کہ ہم یہ آزادی ضائع نہ کر دیں
ہمیں ایک بھیانک مغربی طاقتوں کی منصوبہ بندی سے تفریق اور انتشار کی آگ میں جھونکا جا رہا ہے اگر ہم مطالعہ کریں تو چند بنیادی سوالات اُبر کر سامنے آئیں گے
ا۔امریکہ اور یورب کے تمام ممالک ایک صف بندی کے تحت مسلم ممالک میں افراتفری اور نفاق پیدا کر کہ انہیں آپس میں لڑا رہے ہیں۲۔اس منصوبہ بندی میں اُنہوں نے فرقہ واریت کا زہر گھول کر پاکستانی قوم کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کر دیا ہے مشرق وسطہ میں ترقی کی خلافت ختم کروا کر چھوٹے چھوٹے ممالک کا آزاد ی دلا کر مغربی بلاک نے اپنی مرضی کے حکمران مسلط کر دیے اور یہ حکمران چوبیس گھنٹے مغربی سامراجیت کی چوکیداری کر رہے ہیں ان ممالک میں سعودی عرب اور اُردن سر فہرست ہے ملاحظہ فرمائے جو ں ہی مصر میں اسلامی تحریک کے علم بردار اخوان النملمین برصر اقتدار آئی تو امریکہ نے مصری فوج کو اشارہ دیا اور اقتدار پر قابض ہو گئی جمہوریت کے علمبردار امریکہ ،برطانیہ اور یورب اس امریت کے خلاف ایک لفظ نہ کہہ سکے اور اندرون خانہ سپورٹ کرتے رہے اور مشرق وسطہ کے حکمرانوں کو اشارہ کر کہ فوجی حکمرانوں کی مدد کررہے ہیں پاکستان کے جاگیر دار تبقے اور فوج کی سرپرستی میں اسلام کے نام پر بننے والے ملک پاکستان کو تقسیم کروایا دیا اور یہاں بنگلہ دیش بنادیا گیاستم ظریفی یہ ہے کہ بنگالیوں کو اُن کی حب وطنی کی سزا دی گئی کہ انسان شرمندہ ہو جاتاہے آج کے مسلمان کی وجہ سے کی مغرب نوازی کی وجہ سے پاکستان کو خطرہ ہے ۔وہ اپنی شناخت کھو رہا ہے مسلمانوں کے خلاف مغربی قوتیں ہر قسم کا ہربہ استعمال کر رہی ہیں اور ملک کو مضبوط بنانے کے بہانے نا ایل حکمران مسلط کر رہے ہیں یہ لوگ مضبوط ملٹری اسٹبلشمنٹ کی پیدا وار ہیں جس کی مثال مسٹر نواز شریف ہیں جو مسلم لیگ کے کرتا درتا اور وزیراعظم ہیںوہ خود کو جنرل ضیاءالحق کا سیاسی وارث کہتے تھے اور اب قائد اعظم کے وارث بن گے ہیں جب سسٹم کمزور ہو جا تاہے تو سیاست بے کار ہو جاتی ہے ان مسائل کو حل کرنے کے لیے مسلم اتحاد کی ضرورت ہے یہ حکمت عملی ہمیں سلف ڈفینس کے طور پر اختیار کرنا ہوگی جہاں بھی انگریز کی سرپرستی میں قائم ہونے والی حکومت کو کوئی خطرہ ہوتا ہے وہاں مصنوعی انقلاب لایا جاتا ہے عالم اسلام کو اس وقت ٹھوس کردار اور قیادت کی ضرورت ہے جو نل سے لے کر کاشغر تک مسلم دنیا کی مالی اور سیاسی رہنمائی کر سکے اندازہ کیجیے جہاں مسلم قوتیں اقتدار میں آتی ہیں فوج کو استعمال کر کے اُنہیں اقتدار سے الگ کیا جاتاہے ان کوتیوں کے باوجود ہم ایک متحدد قوم بن کے اس قابل ہو جائیں گے کہ یہ آگ اور یہ چنگاریاں جو اس ملک جلانے کے لیے جلائی جا رہی ہیںخودبہ خود گلزار ہو جائیں گی۔
چند روز میری جان فقط چند روز اور
اور کچھ دیر دکھ سہ لیں رو لیں تڑپ لیں
جسم پر قید جذبات پر زنجیریں سہی
اپنی ہمت ہے کہ ہم پھر بھی جئے جاتے ہیں
ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جاتے ہیں
ہم کو آج اپنا پے صدا تو نہیں اپنا ہے ظلم کی بہاروں میں دم لینے پر مجبور ہیں.


ہم اپنے اجداد کی میراث سے محروم ہیں ہم 




About the author

MadihaAwan

My life motto is simple: Follow your dreams...

Subscribe 0
160