آخر ایسا کیوں؟

Posted on at


                      یہ 1982 کی بات ہے ،آسٹریلیا کے شہر ملیبورن میں ایک بچہ پیدا ہوتا ہے۔ دنیا میں بہت سے بچے پیدا ہوتے ہیں پر وہ بچہ ان سب سے مختلف  ، اور مختلف بھی خوفناک طریقے سے۔ بغیر بازؤں اور ٹانگوں کے ۔۔۔۔۔۔۔

        جسم    کے   ٪75 حصے کے بغیر، بچہ دنیا کی تلخیوں میں اپنی زندگی شروع کرتا ہے۔ شدید مایوسی  اور  تنہائی کی زندگی۔ اور زندگی بھی ایسی جس میں جسمانی طور پر کوئی حرکت ممکن نہ ہو۔ دس سال کی عمر میں وہ اپنی زندگی سے دلبرداشتہ خودکشی کی کوشش کرتا ہے مگر ناکام ہوجا تا ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسے لوگ کیوں پیدا ہوتے ہیں ۔ قدرت ایسے لوگوں کو کیوں اس ظالم سماج میں بھیجتی ہے جہاں مکمل دھڑ اور تندرست اور توانا بازؤں کے ساتھ لوگوں کا جینا مشکل ہورہا ہے۔ جہاں اپنی بقا  کیلئے لوگوں کو دن رات محنت کرنی  پڑتی ہے۔ ایسے معاشرے میں ایک معذور شخص کا کیا کام جو اپنی جگہ سے ایک انچ بھی ہل نہیں سکتا ۔ وہ اس دنیا میں کیسے سروایئو کر سکتا ہے   ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیوں پیدا کیا گیا اسے؟

 

جناب اس کا جواب ہے۔ 

اسے اس لیے پیدا کیا گیا کہ  وہ بتا سکے زندگی بغیر ٹانگوں اور بازؤں  کے بھی ممکن ہے۔

اسے اس لیے پیدا کیا گیا کہ  وہ بتا سکے کہ انسان اپنا مقام خود بنا تا ہے۔

اسے اس لیے پیدا کیا گیا کہ

  وہ بتا سکے کہ  دنیا کا بیسٹ ٹرینر کیسے بنا جاتا ہے۔۔۔۔ بغیر ہاتھوں کے  مایہ ناز کتاب کیسے تخلیق کی جاسکتی ہے۔۔۔۔۔۔۔ خود کو اتنا   عظیم کیسے بنایا جا سکتا ہےکہ پوری دنیا اس کو اپنے ہاں دیکھنا چاہے۔۔۔۔۔۔  اپنی قدر و قیمت کیسے بنائی جاتی ہے کہ دنیا کی عظیم ترین یونیورسٹیز اسے اپنے پاس بلایئں اور اس کے ایک لیکچر کو اپنے لیے ایک اعزاز سمجھیں۔۔۔۔۔

 

جی جناب میں نکولس وویچی یچ(  Nicholas Vujicic) کی بات کررہا ہوں۔ جس نے یہ ثابت کردیا کہ ناممکن کچھ بھی نہیں۔۔۔۔۔۔

اسکی مشہور کتاب یہ بتاتی ہے کہ   جیا کیسے جاتا ہے۔۔۔۔ ،    Life Without Limits 

 

دنیا ایسے لوگوں کی مثالوں سے بھری پڑی ہےجو انتہائی ناکام ہو کر بھی کامیاب ہوتے ہیں ۔ آخر ایسا کیوں  ہوتا ہے؟

کوئی ایسا کیوں آجاتا ہے جو انسان کے بنائے ہوئے تمام قوانین اور مشاہدوں کو غلط ثابت کر دیتا ہے۔ ایک اچھا طالب علم وہ ہوتا ہے جو پڑھنے میں اچھا ہو۔ جس کی یاداشت اچھی ہو ۔ اسا تذہ اسے پسند کرتے ہوں مگر ایسا کیوں ہوتا ہے کہ ایک بچہ جسے "بے حد سست " کا خطاب ملا ہو، جسے سکول سے نکال دیا گیا ہو وہ ایڈیسن بن جائے اور بلب سمیت دو ہزار ایجادات کر دے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ " کند ذہن" کہلانے والا آئن سٹائن اپنی تھیوری سے دنیا میں تہلکہ مچادے َ۔۔۔۔۔۔۔ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ دنیا کا سب سے بڑا سائنسدان لکھنے، بولنے اور حرکت کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوَ۔۔۔۔۔۔۔ ساری عمر ہمیں ڈگریز کی اہمیت بتائی جاتی ہے اور ہم انہیں حاصل کرنے کیلئے تگ و دو کرتے ہیں پر ایسا کیوں ہوتا ہے کہ دنیا کے کامیاب اور امیر ترین لوگوں کے پاس ڈگری نہیں ہوتی۔ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ ؟؟

ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ قدرت ہمیں ایک نمونہ دکھانا چاہتی تاکہ ہمیں اس بات کا اندازہ ہوجائے کہ ہمارے خود ساختہ پیمانے  کس حد تک درست ہیں۔ وہ خودساختہ قوانین اور پیمانے کیا ہیں؟ ذرا نظر ڈالیے

معذور انسان کامیاب نہیں ہوسکتا۔

کامیابی کیلئے ڈگری چاہیے۔

جو سکول میں پڑھ نہیں سکتا ۔ جس کو سبق یاد نہ ہو وہ کامیاب نہیں ہوسکتا۔ اسکی ساری زندگی خاک چھانتے گزر جائے گی اور ایسا اکثر اساتذہ کرام کلاس میں نکمے بچے کو ضرور کہتے ہیں۔

کامیابی وسائل اور مواقع کہ بغیر ممکن نہیں۔

تمہارا شوق تمہیں روزگار نہیں دلواسکے گا۔ اور اگر شوق بغیر ڈگری کے ہو تو پھر تو بالکل ممکن نہیں۔ 

اور اسطرح کی بہت سی باتیں۔۔۔۔۔

قدرت اس لیے ایسے لوگوں کو بھیجتی ہے جو ہمارے خود ساختہ اور مشاہدے کی بنیاد پر بنائے ہوئے قوانین کو چیلنچ کر سکیں۔ جو یہ بتا سکیں کہ ناممکن کو ممکن کیسے بنایا جاتا ہے ۔ جو اس بات کا احساس دلا سکیں کہ وہ  بغیر وسائل کے اور بغیر مکمل جسم  کے ، اتنے  بڑے کام کرسکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں۔۔۔۔

ایسے لوگ ہمیں جینا سکھاتے ہیں، ہمیں حوصلہ دیتے ہیں۔ ہمیں خواب دیکھنا سکھاتے ہیں اور ہمیں ان خوابوں کو پورا کرنا سکھاتے ہیں۔ہمیں بتاتے ہیں کہ "لائف ود آؤٹ لمٹس "ہے۔   تو آج سے محرومیوں کا رونا  ۔چھوڑیں اور دنیا اور اس کے خود ساختہ قوانین کو چیلنچ کیجیئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

سابقہ بلاگز پڑھنے کیلئے اس لنک پر کلک کیجیے ۔۔۔۔

 

عمیر علی

Fb/umairali456

Umairali286@gmail.com



About the author

160