ٹیڑھے میڑے دانت صدیوں پرانی شکایت ہے اس کا پتہ اسوقت چلا جب اہرام مصر سے برآمد ہونے والی کئی حںوط شدہ لاشیں ملی تو اس بات کی گواہ ہیں کہ ایک ہزار سال قبل مسیح میں بھی ٹیڑھے میڑے دانتوں کو درست کرنے کے جتن کیے جاتے تھے ۲۵ برس قبل از مسیح کے ایک یونانی معاالج نے ٹیڑھے میڑے دانتوں کے بارے میں لکھا تھا کہ ان دانتوں کی اصلاح انگلی کے دباو سے کی جاسکتی ہے دانتوں کی اصلاح اب ایک باقاعدہ فن بن گیا ہے طب جدید میں اسی ’’ آرتھیوڈنیشیا‘‘ کہتے ہیں آرتھو کے لغوی معنی ٹھیک یا درست کرنے کے ہے اور ڈون کے معنی دانت ، اس کے معالج یعنی دانتوں کی اصلاح کرنے والے کو ’’آرتھوڈنٹک ‘‘ کہلاتا ہے اور بالعموم دباو سے بھی دانت ٹھیک کیے جاتے ہیں
۱۸ صدی کے بعد سے اب تک یعنی ۲۱ صدی تک اس علم میں دلچسپی زیادہ لی جانے لگی اس دور مین دانتوں کی اصلاح کے بارے میں پٹیوں ، شکنجوں اور بندھنوں کے ذریعے سے کرنے کے سلسلے میں کئی معلوماتی مضمون لکھے گئے اس کے بعد ان شکنجوں اور بندھنوں کی تیاری اور استعمال اور اس کی شکل میں نمایاں تبدیلیوں کا سلسلہ چل نکلا اب انہیں اسکے ماہر وسیع پیمانے پر اصلاح دندان کے لیے استعمال کر رہے ہیں اور انکے ذریعے سے دانت سیدھے اور باقاعدہ بنا کر مسکراہٹ کو دل آویز اور خوبصورت بنایا جارہا ہے مسواک کے بارے میں یہ بات صدیوں سے مشہور ہے کہ اس کے ابتدائی عمر سے صحیح اور باشعور استعمال کے ذریعے بے ڈھنگے دانت دھیرے دھیرے ٹھیک ہو جاتے ہیں
دانت ٹیڑے ہونے کی کئی وجوہات ہیں جسکی ایک بڑی وجہ جبڑے میں جگہ کی کمی ہوتی ہے اور یہ صورتحال اسوقت پیش آتی ہے کہ جب جبڑے کے لحاظ سے دانت بہت ٹیڑھے ہوتے ہیں یا پھر جب زائد دانتوں کی وجہ سے انہیں دانتوں میں سمانے کی جگہ نہیں ملتی یعنی جب جبڑے میں زیادہ دانت نکل آتے ہیں مستقل دانتوں کے نظام میں ٹوٹل ۳۲ دانت ہوتے ہیں یہ دانت مختلف اوقات میں نکل آتے ہیں جب جگہ کم ہوتی ہے تو بعد میں نکلنے والے دانت جبڑے کی قوس مین یعنی بے ٹھکانا بن کر رہ جاتے ہیں
دانتوں میں سب سے آ خر مین عقل داڑھے نکلتی ہیں اور جگہ کی کمی کی وجہ سے گویا پھنس کر رہ جاتی ہیں کچھ دانتون کے سرے ٹیڑھے ہو جاتے ہیں بعض اوقات دانت کے گر جانے سے بھی ساتھ والے دانٹ ٹیڑھے ہو جاتے ہیں بچوں مین بوتل یا چوسنی زیادہ عمر تک منہ میں دینے سے دانٹ ٹیڑھے ہو جاتے ہیں