کسی بھی ملک کا دفاع اس ملک کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے کیوں کہ بغیر موثر دفاع کے وہ ملک اپنے دشمن ممالک کے لئے پلیٹ میں رکھے ہوۓ کیک کی سی حیثیت رکھتا ہے جسے وہ جب چاہیں اپنے حلق میں اتار سکتے ہیں اس لئے ہر ملک کی اولین ترجیح اپنا دفاع مضبوط کرنا ہوتی ہے تا کہ مشکل گھڑی میں دشمن کے دانت کھٹے کر سکے . پاکستان قائم ہوا تو اس کے ازلی دشمن بھارت نے کمزور دفاع کا فائدہ اٹھاتے ہوۓ ٢ بار پاکستان پر جنگ مسلط کی مگر پاکستانی قوم دشمن کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن گئی اور بھارت اپنا سا منہ لے کر رہ گیا . مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میدان میں بھی ترقی ہوتی گئی اور روائتی ہتھیاروں سے آگے بڑھ کر دنیا ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کی دوڑ میں شامل ہو گئی اور آخر کار بھارت نے بھی اس میدان میں کامیابی حاصل کر لے اور ١٩٧٤ میں پہلا ایٹمی دھماکہ کر کہ پاکستان کے لئے خطرے کی گھنٹی بجا دی . تب ہی اس وقت کے وزیراعظم زوالفقار علی بھٹو نے بھی اس میدان میں پیشرفت کا فیصلہ کیا تا کہ پاکستان بھارت کے لئے تر نوالہ ثابت نہ ہو سکے . انہوں نے یہ فیصلہ جس شخص کے ساتھ مل کر کیا اور بعد میں اسی شخص نے اس خواب کو شرمندہ تعبیر کیا آج ہم ان کو محسن پاکستان جناب ڈاکٹر عبدل قدیر خان کے نام سے جانتے ہیں . ڈاکٹر قدیر خان نے انتہائی مشکل حالات کے باوجود صرف ١٠ سال کے قلیل عرصہ میں پاکستان کو دنیا کی ساتویں جوہری طاقت بنا کر اس کا دفاع نا قابل تسخیر بنا دیا
ڈاکٹر قدیر خان جن کو اسلامی بم کا باپ بھی کہا جاتا ہے انڈیا کے شہر بھوپال میں اپریل ١٩٣٦ میں پیدا ہوۓ . باپ کا نام غفور خان تھا . قدیر خان بچپن سے ہی بہت ذہین اور علم دوست ثابت ہوۓ اس کے ساتھ ان کا رجحان مذھب کی جانب بھی کافی تھا . انہوں نے تعلیم کا آغاز بھوپال میں ہی کیا اور پرائمری کا امتحان اچھے نمبروں سے پاس کرنے کے بعد اجمیر ہائی سکول میں داخلہ لے لیا . ان کا شمار غیر معمولی طور پر ذہین طالب علموں میں ہوتا تھا . نہایت چھوٹی عمر سے ہی قدیر خان نماز اور روزے کی پوری پابندی کرتے تھے اس کی وجہ ان کے گھر کا مذہبی ماحول تھا یہی نہیں بلکہ وہ مسجد میں اذان دینے کا فریضہ بھی انجام دیتے تھے . ١٩٥٢ میں انہوں نے میٹرک کا امتحان پاس کیا . پاکستان ہمیشہ سے قدیر خان کے لئے ایک پرکشش سر زمین تھی کیوں یہ اسلام کے نام پر قائم ہوا تھا اور ہندوستان کے مسلمان اس کو اسلام کا قلعہ کہتے تھے اس لئے ١٩٥٢ میں جب انہوں نے میٹرک پاس کر لیا تو اپنے بڑے بھائی کے بلاوے پر لبیک کہتے ہوۓ پاکستان کا رخ کیا . مصیبتوں کے انبار سے نبرد آزما ہوتے ہوۓ وہ پاکستان کیسے پہنچے یہ ایک الگ داستان ہے . پاکستان پہنچنے کے بعد انہوں نے ڈی- جے کالج میں داخلہ لے لیا جہاں سے ٢ سال بعد ایف – ایس – سی کا امتحان اعلی نمبروں کے ساتھ پاس کیا . اس کے بعد ان کو برطانیہ میں اعلی تعلیم کے حصول کے لئے وظیفے کی پیش کش بھی ہوئی مگر وطن کی محبت سے سرشار قدیر خان نے اس سر زمین کو چھوڑنا گوارا نہیں کیا اور کراچی یونیورسٹی میں بی – ایس – سی میں داخلہ لے لیا . ١٩٥٦ کا سال قدیر خان کے لئے بہت غم و اندوہ کا سال ثابت ہوا کیوں کہ اس سال ان کے والد محترم غفور خان بھوپال میں انتقال کر گئے . اس جانکاہ صدمے کو ڈاکٹر قدیر خان نے بہت ہمت کے ساتھ برداشت کیا
بی – ایس – سی پاس کرنے کے بعد قدیر خان ڈھائی سال تک بطور انسپکٹر اوزان و پیمانہ جات ملازمت بھی کرتے رہے مگر یہ چیز ان کے معیار کے خلاف تھی لہذا جب ان کو دوبارہ اعلی تعلیم کے لئے وظیفے کی پیشکش ہوئی تو انہوں نے اس کو قبول کر لیا اور ١٩٦١ میں اپنی علم کی پیاس بھجانے یورپ روانہ ہو گئے . قدیر خان نے جرمنی کی مشہور یونیورسٹی چارلٹن برگ میں داخلہ حاصل کیا اور پوری جی جان سے علم کے حصول میں مصروف ہو گئے . اسی یونیورسٹی کے ٢ سالہ تعلیمی دور میں ان کی ملاقات اپنے ہونے والی بیوی سے ہوئی اور بہت جلد وہ شادی کے بندھن میں بندھ گئے
*************************************************
Click Here to Read More of My Blogs
Blog Writer