پاکستان کے نظام عدل میں اصلاح کے پہلو(٣)

Posted on at


اسلامی نظریاتی کونسل :

سپریم کورٹ اور ہائی کورٹوں کے ممبران پر مشتمل ،تین سال کی معیاد کے لیے کونسل کے ممبران مقرر کیے جاتے ہیں-صدر ،وزیر اعظم ،پارلیمنٹ یا کوئی بھی ادارہ اس کونسل کے رکن کو ملازمت سے الگ نی کر سکتا –صرف کونسل کے ارکان کی اکثریت کے فیصلہ کے مطابق کسی رکن کو الگ کیا جا سکتا ہے-کونسل اپنی سالانہ کروائی کی رپورٹ حکومت کو بھیج دتی ہے- یہ کونسل قوانین و دساتیر کو اسلامی رنگ دنے کا فریضہ ادا کرتی ہے-اسی ضمن شرعی عدلیہ اور وفاقی شرعی عدالت بھی قائم ہوئی ہے-وفاقی سطح پر محتسب اعلی کا تقرر بھی اسلامی قوانین کے عین مطابق کیا جاتا ہے-جس کو سپریم کورٹ کے مساوی اختیارات حاصل ہیں

- اصلاح کے پہلو:

عدلیہ کی آزادی:

پاکستان کے نظام عدل میں سب سے زیادہ اصلاح کا پہلو عدلیہ کی آزادی سے متعلق ہے-ھمارے یھاں عدلیہ کلی طور پر آزاد و با اختیار نہیں ہیں- عدلیہ پر کئی طرح سے حکومتی دباؤ موجود رہتا ہے-ہر حکومت اپنی مرضی کے فیصلے کروانے کے لیے ججوں کو خریدتی ہے بصورت دیگر انھے دباؤ کے تحت ایسا کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے-اس صورتحال کے تحت صحیح انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہو پاتے-لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ عدلیہ کو مکمل آزادی فراہم کی جاے –ججوں کو اس درجہ تحفظ پہنچایا جاے کہ وہ بغیر کسی دباؤ کے اپنے فرائض خوش اسلوبی سے سر انجام دیں-جبھی تو انصاف کے تقاضے تکمیل پا سکتے ہیں-

ججوں کی تقرری:

ججوں کی تقرری کا پہلو بھی پاکستان کے عدالتی نظام میں اصلاح طلب ہے-سیشن کورٹ کے ججوں کی تقرری تو مقابلے کے امتحانات کے ذریعہ ہوتی ہے لیکن ہائی کورٹ اور بعض دیگر عدالتوں کی تقرری تجربہ کی آڑ میں سفارشی بناہ پر ہوتی ہے-حکومت اپنی پسند کے افراد کو نوازتی ہے اور جج کے اعلی ترین منصب پر بعض غیر زمہ دار اور نہ اہل افراد بھی برا جمان ہو جاتے ہیں-یہ بات باعث افسوس ہے-ایسے افراد کی تقرری کے باعث انصاف پہنچانے میں مشکلات پیدا ہوتی ہیں اور معا شر ہ بنامنی اور شر کی لپیٹ میں آجاتا ہے –لہذا حکومت کو چاییے کہ ججوں کی تقرری بغیر سفارش کے صرف اور صرف اہلیت کی بنیاد پر کرنے کے لیے مؤثر اقدامات کرے-

سیاسی مداخلت

: نظام عدل میں ایک اصلاح طلب پہلو عدلیہ میں سیاسی مداخلت بھی ہے-سیاسی لیڈر اپنے من پسند فیصلے کروانے کے لیے ججوں کو طرح طرح سے مجبور کرتے ہیں- کبھی بھاری رشوت کی پیش کش تو کبھی دھونس دھاندلی سے-حتی کہ ججوں کو اغوا بھی کر لیا جاتا ہے اور بعض با اثر افراد ججوں کو قتل بھی کروا دیتے ہیں-یوں انصاف کی راہ میں رکاوٹیں حائل ہوتیں ہیں-حکومت کو اس پہلو پر بھی خاص توجہ دینی چاییے-اس کے لیے ضروری ہے کہ حکومت منصف حضرات کو تحفظ فراہم کرے- تا کہ وہ بلا خوف و خطر عدل و انصاف کے تقاضے پورے کر سکیں-سیاسی مداخلت کے خاتمے سے ہی یہ نظام عدل بہتر طور سے کار کردگی کا مظاہرہ کر سکتا ہے-



About the author

aroosha

i am born to be real,not to be perfect...

Subscribe 0
160