ایک غیور قوم کی بے بس بیٹی کا خط

Posted on at


یہ تو ہم سب کو معلوم ہے کہ ایک خط نے محمد بن قاسم کو سندھ (پاکستان کا صوبہ) پر حملہ کرنے پر مجبور کر دیا تھا- کیونکہ وہ ایک غیرت مند مسلمان اور سپہ سالار تھا جس کی غیرت نے اسے ایک مسلم بہن کی آواز پر لبیک کہا

ویسے تو ہم سب جانتے ہیں کہ محمد بن قاسم ایک نوجوان سپہ سالار تھا اور سندھ پر حملے کے وقت اس کے عمر صرف 17 سال تھی- لیکن کیا وجہ تھی کہ محمد بن قاسم کو ہی اس مہم پر روانہ کیا گیا- اس سب حالات کا ذکر نیچے تفصیل کے ساتھ کیا گیا ہے- لیکن اس پہلے ان حالات پر ایک نظر، جن سے مجبور ہو کر اس مسلمان بیٹی نے وہ خط اپنے خون سے لکھا اور اس کو اس وقت کے حکمران کو بیھجا

اس بہادر بیٹی کا نام ناہید تھا جو ایک عرب تاجر ابوالحسنکی بیٹی تھی، ابولحسن بصرہ کے حکمران حجاج بن یوسف کا ایک اچھا دوست بھی تھا- ایک دفعہ ابوالحسنہند کی طرف سے حجاج بن یوسف کو دے گئے تحائف لے کر بصرہ جا رہا تھا کہ راستے میں ان کے جہاز کو سمندری قزاقوں نے لوٹ لیا اور یہ خبر دی گئی کے ان جا جہاز کسی چٹان سے ٹکرا کر تباہ ہو گیا ہے.

 اس کے کچھ عرصہ بعد ہی ایک اور جہاز جو سراندیپ (موجودہ سری لنکا) سے بصرہ کی طرف جا رہا تھا اس میں تحائف کے علاوہ یتیم بچے اور بیوہ عورتیں بھی شامل تھیں کو سندھ کے ایک حکمران نے بحری قزاقوں کی مدد سے لوٹ لیا جس میں ابوالحسن کی بیٹی اورابوالحسن کا  بیٹا بھی شامل تھے

جب یہ خبر حجاج بن یوسف کے پاس آئی اور اس کو وہ خط  دیا گیا جو کہ خود ابولحسن کی بیٹی نے اپنے خون سے لکھا تھا- اس خط کو حجاج بن یوسف کے سامنے پیش کرنے والے کے الفاظ کچھ اس طرح تھے

یہ خط آپ کے نام ابوالحسن کی لڑکی نے اپنے خون سے لکھا تھا اور مجھ سے کھا تھا کہ اگر حجاج بن یوسف کا خون منجمد ہو چکا ہو تو میرا یہ خط پیش کر دینا ورنہ اس کے ضروت نہیں

حجاج بن یوسف رومال پرخون سے لکھی ہوئی تحریر کی چند سطور پڑھ کر کپکپا اٹھا اور اس کی آنکھوں کے شعلے پانی  میں تبریل ہونے لگے- اس نے وہ رومال محمد بن قاسم کے ہاتھ میں دے دیا اور خود ہندوستان کا نقشہ دیکھنے لگا- محمد بن قاسم نے شروع سے لے کر آخر تک وہ مکتوب پڑھا، جس کی تحریر کچھ اس طرح تھی

مجھے یقین ہےبصرہ کا حکمران اب تک قاصد کی زبانی مسلمان بچوں اور عورتوں کا حال سن کر اپنی فوج کے غیور سپاہیوں کو گھوڑوں پر زینیں ڈالنے کا حکم دے چکا ہو گا اور قاصد کو میرا خط دکھانے کی ضرورت پیش نہیں آے گی- اگر حجاج بن یوسف کا خون منجمد ہو چکا ہے تو شاہد میری تحریر بھی بےسود ثابت ہو- میں ابوالحسن کی بیٹی ہوں- میں اور میرا بھائی ابھی تک دشمن کی دسترس سے محفوظ ہیں لیکن ہمارے ساتھی ایک ایسے دشمن کی قید میں ہیں جس کے دل میں رحم کیلئے کوئی جگہ نہیں- قید خانے کی اس تاریک کوٹھری کا تصور کیجیے- جس کے اندر اسیروں کے کان مجاہدین اسلام کے گھوڑوں کی ٹاپوں کی آواز سننے کے لئے بیقرار ہیں- یہ ایک معجزہ تھا کہ میں یر میرا بھائی دشمن کی قید سے بچ گئے تھے لیکن ہماری تلاش جاری ہے اور ممکن ہے کہ ہمیں بھی کسی تاریک کوٹھٹری میں پھینک کیا جائے- ممکن ہے اس سے پہلے ہی میرا زخم مجھے موت کی نیند سلا دے اور میں عبرتنا ک انجام سے بچ جاؤں- لیکن مرتے وقت مجھے یہ افسوس ہو گا کہ وہ صبا رفتار گھوڑے جن کے سوار ترکستان اور افریقہ کے دروازے کھٹکھٹا رہی ہیں- وہ اپنی قوم کے یتیم اور بے بس بچوں کی مدد کو نہ پہنچ سکے- کیا وہ ممکن ہے وہ تلوار جو روم و ایران کے مفرور تاجداروں کے سے پر صاعقه بن کر کوندی، وہ سندھ کے راجہ کے سامنے کند ثابت ہو گی- میں موت سے نہیں ڈرتی لیکن اے حجاج! اگر تم زندہ ہو تو اپنی غیور قوم کے یتیموں اور بیواؤں کی مدد کو پہنچو.....!!!" ہ

 ایک غیور قوم کی بے بس بیٹی.... ناہید

Written By: Khurram Shehzad



About the author

DarkSparrow

Well..... Leave it ....

Subscribe 0
160