جب بھی کوئی شخص یا کوئی قوم فکری اور نظریاتی طور پر کسی دوسری قوم یا شخص کی پیروی کرنے لگ جائے تو یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ جسمانی طور پر اس کے زیر اثر ہو اسکے جسمانی طور پر زیر اثر نہ ہونے کے باوجود بھی وو اس شخص یا قوم کے زیر اثر ہی ہوتا ہے کیوں کہ وہ نظریاتی طور پر اس کے ہی زیر اثر ہوتا ہےمطلب وہ قوم دوسری قوم کی ذہنی غلام بن جاتی ہے .
ذہنی طور پر غلام قوم دوسری قوم سے اتنی مغلوب ہو جاتی ہے کہ اس کی ثقافت ، رسم و رواج ، تعلیمی نظام ، سیاسی نظام ہر چیز کو اپنانا فخر سمجھتی ہے تو ایسی قوم اپنے تشخص کھو بیٹھتی ہے جس سے اس کی اپنی معاشرتی اور دوسری اقدار متاثر ہوتی ہیں . ذہنی طور پر غلام ہونے کے لئے جسمانی طور پر غلام ہونا ضروری نہیں ہے . اور جس قوم کی وہ ذہنی غلام ہوتی ہے وہ قوم بھی اسے اچھا نہیں سمجھتی بلکہ حقارت کی نظر سے دیکھتی ہے .
پاکستانی قوم کا حال بھی کچھ ایسا ہی ہوتا جا رہا ہے . پاکستان کی ہر ثقافت ، رسم و رواج تبدیل ہوتا جا رہا ہے اور پاکستان کی قوم انگریزوں کو اپناتی جا رہی ہے . آج پاکستان میں جب کوئی اردو میں بات کرتا ہے تو اسے جاہل سمجھا جاتا ہے جبکہ اردو پاکستان کی قومی زبان ہے. آج اگر پاکستان میں کوئی شلوار قمیض ہی پہنتا ہو تو اسے دیہاتی سمجھ کر اگنور کیا جاتا ہے جبکہ پینٹ شرٹ پہننے والے کوئی اچھا سمجھا جاتا ہے جبکہ شلوار قمیض پاکستان کا قومی لباس ہے اور پینٹ شرٹ انگریزوں کا لباس ہے . میں اس کے خلاف نہیں ہوں کہ ہمیں انگریزی زبان سیکھنی ہی نہیں چائے بلکل سیکھنی چاہیے. میں صرف اس کے خلاف ہوں کہ ہم آہستہ آہستہ انگریزوں کے ذہنی غلام بنتے جا رہے ہیں اور اپنا معاشرہ بھولتے جا رہے ہیں
.