ڈھلتی عمروں کی یہ شادی شدہ خواتین بھی توجہ کی مستحق ہیں(حصہ ہفتم

Posted on at


میں بھی ایک مکمل عورت کی طرح خوش و خرم زندگی گزارنے کے قابل ہو جاتی میری ذمہ داریاں دیکھتے ہی دیکھتے دس برس آگے لے گیئں کیونکہ کہ میری والدہ گھر سے ایک قدم باہر نہیں نکل سکتی تھی ، میرے والد بستر پر پڑے تھے جبکہ چھوٹے بھائی زیرتعلیم تھے ۔ ہر شخص میری عظیم قربانیوں کو سراہتا اور کچھ کے لہجے میں ہمدردی بھی ہوتی مگر میرا خاندان اس سپورٹ کا عادی ہو چکا تھا جو کہ میں انہیں دے رہی تھی اور کسی کو یہ یاد بھی نہیں رہا تھا میری اپنی بھی کوئی خواہشات ہے ۔

وہ ۔۔۔۔؟ اب میرے لئے بھولی بسری یاد بن چکا تھا میری فیملی میرے والد کے ساتھ ہونے والے واقعہ کے اثرات سے باہر آچکی تھی اور ہر شخص اپنی اپنی جگہ خوش تھا جس نے یہ بات یکسر فراموش کر دی تھی تو میں خود اپنے اوپر گرفت کھو بیٹھی ہوں ۔ الفاظ کا تمام تر ذخیرہ استعمال کر کے بھی میں اس جذبے کو بیان نہیں کر سکتی جس سے محرومی کا مجھے سامنا تھا کیونکہ میں اس سے قطعی ناواقف تھی لوگ بڑے اطمینان سے ازدواجیات کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتے اور کھلم کھلا گفتگو کرتے میری زبان کو تالا لگ جاتا ۔

میں کیا کہتی جب میں ایک چیز کے بارے میں جانتی تک نہیں تھی؟ کتابیں یا ناول پڑھتے ہوئے جب اس نوعیت کی کوئی سچویشن آتی تو میں چند صفحات آگے نکل جاتی کیونکہ جن پہلوؤں پر آپ کچھ نہ جانتے ہوں ان کے بارے میں پڑھ کر اپنے ذہن پر بوجھ ڈالنے کا میرے نزدیک کوئی جواز نہیں ہے ، کیا آپ کے خیال میں ایسا نہیں ہے ۔ ؟

مجھے تو اس وقت ایسے فرد کی ضرورت تھی جو مجھے پیار سے تھام کر اور محبت سے میرا ہاتھ پکڑ کر اس انوکھے تجربے سے روشناس کرائے مگر کون ؟ یہی چیز مجھے سماجی اور معاشی مصروفیات میں الجھاتی چلی گئی ۔ ایک مرتبہ لاہور میں کسی کاروباری کام کے حوالے سے جانے پر ایک کلائنٹ نے میرے لئے ڈنر کا اہتمام کیا جہاں وہ اپنی بیوی کے ساتھ آیا تھا جب کے اس کا ایک دوست بھی موجود تھا مگر اسی دوران وہ لوگ دیگردستیاب اشیاء سے شغل کرتے رہے تو میری توجہ کا مرکز کولڈڈرنک کی وہ بوتل ہی رہی جو کہ مجھ سے بہ مشکل ختم کی گئی کیونکہ دوران گفتگو ارادی یا غیر ارادی طور پر وہ اپنا ہاتھ میرے بازو یا کندھے پر رکھتا تو میں لرز کر رہ جاتی ، ایک کپکپی سی سارے جسم میں دوڑ جاتی کیونکہ میرے ذہن میں عجیب سے سوالات کلبلا رہے تھے ۔

 

میں بھی ایک مکمل عورت کی طرح خوش و خرم زندگی گزارنے کے قابل ہو جاتی میری ذمہ داریاں دیکھتے ہی دیکھتے دس برس آگے لے گیئں کیونکہ کہ میری والدہ گھر سے ایک قدم باہر نہیں نکل سکتی تھی ، میرے والد بستر پر پڑے تھے جبکہ چھوٹے بھائی زیرتعلیم تھے ۔ ہر شخص میری عظیم قربانیوں کو سراہتا اور کچھ کے لہجے میں ہمدردی بھی ہوتی مگر میرا خاندان اس سپورٹ کا عادی ہو چکا تھا جو کہ میں انہیں دے رہی تھی اور کسی کو یہ یاد بھی نہیں رہا تھا میری اپنی بھی کوئی خواہشات ہے ۔

وہ ۔۔۔۔؟ اب میرے لئے بھولی بسری یاد بن چکا تھا میری فیملی میرے والد کے ساتھ ہونے والے واقعہ کے اثرات سے باہر آچکی تھی اور ہر شخص اپنی اپنی جگہ خوش تھا جس نے یہ بات یکسر فراموش کر دی تھی تو میں خود اپنے اوپر گرفت کھو بیٹھی ہوں ۔ الفاظ کا تمام تر ذخیرہ استعمال کر کے بھی میں اس جذبے کو بیان نہیں کر سکتی جس سے محرومی کا مجھے سامنا تھا کیونکہ میں اس سے قطعی ناواقف تھی لوگ بڑے اطمینان سے ازدواجیات کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتے اور کھلم کھلا گفتگو کرتے میری زبان کو تالا لگ جاتا ۔ میں کیا کہتی جب میں ایک چیز کے بارے میں جانتی تک نہیں تھی؟ کتابیں یا ناول پڑھتے ہوئے جب اس نوعیت کی کوئی سچویشن آتی تو میں چند صفحات آگے نکل جاتی کیونکہ جن پہلوؤں پر آپ کچھ نہ جانتے ہوں ان کے بارے میں پڑھ کر اپنے ذہن پر بوجھ ڈالنے کا میرے نزدیک کوئی جواز نہیں ہے ، کیا آپ کے خیال میں ایسا نہیں ہے ۔ ؟

مجھے تو اس وقت ایسے فرد کی ضرورت تھی جو مجھے پیار سے تھام کر اور محبت سے میرا ہاتھ پکڑ کر اس انوکھے تجربے سے روشناس کرائے مگر کون ؟ یہی چیز مجھے سماجی اور معاشی مصروفیات میں الجھاتی چلی گئی ۔ ایک مرتبہ لاہور میں کسی کاروباری کام کے حوالے سے جانے پر ایک کلائنٹ نے میرے لئے ڈنر کا اہتمام کیا جہاں وہ اپنی بیوی کے ساتھ آیا تھا جب کے اس کا ایک دوست بھی موجود تھا مگر اسی دوران وہ لوگ دیگردستیاب اشیاء سے شغل کرتے رہے تو میری توجہ کا مرکز کولڈڈرنک کی وہ بوتل ہی رہی جو کہ مجھ سے بہ مشکل ختم کی گئی کیونکہ دوران گفتگو ارادی یا غیر ارادی طور پر وہ اپنا ہاتھ میرے بازو یا کندھے پر رکھتا تو میں لرز کر رہ جاتی ، ایک کپکپی سی سارے جسم میں دوڑ جاتی کیونکہ میرے ذہن میں عجیب سے سوالات کلبلا رہے تھے ۔

 



About the author

shaheenkhan

my name is shaheen.i am student . I am also interested in sports.I feel very good being a part of filmannex.

Subscribe 0
160