نظیر اکبرآبادی کی شاعری - دوسرا حصہ

Posted on at


 


نظیر اکبرآبادی کی شاعری کا ایک اہم موضوع اقتصادیات ہے- یہ ان کا دل پسند موضوع ہے ان کی متعدد نظمیں اس موضوع پر سامنے آئی ہیں- انہوں نے ایک باشعور فنکار کی حیثیت سے اپنے فن کا موضوع اس حقیقت کو بنایا جو المناک بھی تھی اور عبرتناک بھی- سیاسی حالات کی ابتری نے طرز معاشرات کے ساتھ ساتھ معاشی حالت کو بھی ابتر کر دیا تھا اور بےروزگاری انتہا تک پہنچی ہوئی تھی- ایسے میں نظیر"کوڑی کی فلاسفی" "پیسے کی عزت" "رز کی فلاسفی" "مفلسی" "آٹے دال کا بھاؤ" "روٹی کی فلاسفی" چپاتی کی فلاسفی" اور "پیٹ کی فلاسفی" جیسی نظمیں تخلیق کرتے ہیں
ان سب سے واضع ہوتا ہے کہ نظیراقتصادی مسلے کی اہمیت سے آگاہ تھے- وہ جانتے تھے کہ یہ اقتصادیات ہی ہے جو تعمیر و تخریب کی سب سے اہم کڑی ہے- یہ ہی فلاح اور یہ ہی تباہی- موجودہ دور میں عوامی شاعر سے مراد سیاسی حوالے سے عوام میں بغاوت کو ابھارنے والا ہے لیکن قدیم دور میں عوامی شاعر سے مراد عوامی ماحول اور عوامی رویوں کا ترجمان تھا- نظیر خود نچلے طبقے سے تعلق رکھتے تھے- انہوں نے عوامی خوشیوں اورغموں کی ترجمانی کچھ اس انداز سے کی ہے کہ عوام سے عملی محبت کا ثبوت فراہم کر دیا- موجودہ دور میں اسی عوامی تعلق کی بنا پر انہیں جدیدیت کا علمبردار، واقف نگار اور جمہوریت کا علمبردار قرار دیا گیا ہے- عوامی زندگی میں معاشی حوالے سے روٹی، دال اور پیسے کی کمی کو ہر دور میں محسوس کیا گیا- نظیر نے بھی عوام میں رہتے ہوے اسے محسوس کیا اور اس حوالے سے عوام کی ترجمانی کچھ اس انداز سے کی ہے کہ بیان میں ایک انوکھا اور اچھوتا پین پیدا ہو گیا ہے - اس کی چند مثالیں ملاحظہ کیجیئے


کندھے پر تیغ دھرتے ہیں کوڑی کے واسطے
یہاں تو لوگ مرتے ہیں کوڑی کے واسطے


آپس میں خوں کرتے ہیں کوڑی کے واسطے
جو جان دے گذرتے ہیں کوڑی کے واسطے


ایک اور جگہ فرماتے ہیں


گر نہ آٹے دال کا ہوتا قدم یاں درمیان
جاگتے دربا ر میں کیوں آدھی آدھی رات واں


منشی و میرو وزیر و بخشی و نواب و خاں
کیا عجب نقشہ پڑا ہے آہ کیا کیجیے بیاں


معاشرتی ناہمواری کا جو طوفان ہندوستان میں آیا، اپنے ساتھ اخلاق، رہن سہن، لیں دین، میل جول اور ہر معاشرتی قدر بہا لے گیا- مروت کی جگہ حرص نے لے لی- یہاں تک کہ زور و مال ہی انسان کی اعلی قدر کی حیثیت حاصل کر گیا اور دنیا کے تمام اقدار روپے پیسے سے تولی جانے لگیں- ایسے میں نظیر نے جہاں غریب اور مفلس طبقے کی ترجمانی کی وہاں اعلی انسانی اقدار کے فروغ پر بھی توجہ دلوائی- مذہبی تفریق سے قطع نظر انہوں نے مساوات کا درس دیا- اس سلسلے میں ان کی نظم "عام آدمی" انسانی دوستی کا منشور ہے- جس کے پس پردہ یہ تلقین کی گئی ہے کہ اگرچہ حالات نے انسانوں میں تفاوت پیدا کر دی ہے لکن انہیں چاہیے کہ وہ عدنا غریب اور برے انسانوں کو بھی آدمی تصور کرتے ہوے ان سے محبت کریں چونکہ نظیر کا پیشہ معلمی تھا اس لیئے اس وقت ان کو بھی ان ہی حالات کا سامنا تھا جن سے ہندوستان کا عام طبقہ دوچار تھا-نظیر معلم تھے اور معلم طبقہ کی ترجمانی کرنا نہیں بھولے اس سلسلہ میں فرماتے ہیں


جو اہل فضل عالم و فاضل کہلاتے ہیں
پوچھے کوئی الف تو اسے ب بتاتے ہیں


مفلس ہوے تو کلمہ تک بھول جاتے ہیں
وہ جو غریب غربۂ کے لڑکے پڑھاتے ہیں


نظیر اپنی شاعری میں جہاں زرزادوں کی لالچ کو بیان کرتے ہیں وہیں عام طبقات کی حسرتوں. مایوسیوں، امیدوں، اور آرزوؤں کا تذکرہ بھی کرتے ہیں اور ان آرزوؤں کی پامالی کا ان کو شدید دکھ بھی ہوتا ہے- لیکن یہ ان کے کلام کی شریں بیانی ہے کہ معلم اور مبصر ہوتے ہوے بھی ناصح یا مبلغ کا روپ اختیار نہیں کرتے اور عوام کی اصلاح بھی یوں کرتے ہیں کہ محسوس ہوتا ہے کہ یاران طریقت ہی میں کوئی حقیقت کا پردہ فاش کر رہا ہے
وہ نصیحت بے موقع نہیں کرتے تھے اور مناسب موقع ضائع نہیں کرتے، وہ ہمدرد بھی ہیں غمسار بھی اور رازدار بھی- پھر ان کی نصیحت کیوں نہ پرتاثیر ہو، وہ دور جب لوگ اپنی زندگی کے لئے دوسروں کی زندگی کا خاتمہ کئے جا رہے تھے اپنا پیٹ بھرنے کے لئے دوسرے کا گلہ کاٹ رہے تھے جب ٹھگ، قزاق، رہزن و وحشت و بربریت کی المناک داستانیں رقم کر رہے تھے وہیں نظیر اکبرآبادی لوگوں کو ہوشیار رہنے کا درس دیتے ہیں


کیا کیا فریب کہیے دنیا کی فطرتوں کا
جب دوست مل کے لوٹیں اسباب مشفقوں کا


مکر و دغا و دزدی ہے کام اکثروں کا
پھر کس زباں سے شکوہ اب کیجیے دشمنوں کا


ہوشیار یار جانی یہ دشت ہے ٹھگوں کا
یاں ٹک نگاہ چوکی اور مال دوستوں کا


 



About the author

Maani-Annex

I am an E-gamer , i play Counter Strike Global Offence and many other online and lan games and also can write quality blogs please subscribe me and share my work.

Subscribe 0
160