ادب اور اخلاق (١)

Posted on at


ادب اور اخلاق کی بحث افلاتوم اور ارسطو کی تحریروں سے ثابت ہے-قدیم ادوار میں مثالیت پسندوں کے قریب ادب کو اخلاقیات کی معین حدود کا احترام کرنا چاییے –یھاں ادب میں بغاوت کا عنصر بھی مروجہ اخلاقی اقدار کے باہر نہیں جا سکتا –لیکن یہ بات بھی یقیننی ہے کہ ادب اور اخلاقیات کے پیمانے وقت اور ماحول کے زمانی و مکانی امکانات کے تحت بدلتے رہتے ہیں-اس کے ساتھ ساتھ معا شرے میں اخلاقیات کا معیا ر الگ ہوتا ہے-ادب اور اخلاق کے باہمی تعلق اور دونوں کی حدود کا تعین کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ دیکھ لین-اکلاق بذات خود کیا چیز ہے؟ اخلاق کی سادہ سی تعریف یہ کی جا سکتی ہے کہ اخلاق کسی معاشرے کے اجتمائی افعال و اقوال کے طور طریقوں سے متعین ہے

– اخلاق اور معاشرہ :

 سید  احتشام حسین نے اپنے ایک مضمون میں چند سوالات اٹھاے تھے:کیا سری دنیا میں ایک ہی نظاماخلاق رائج ہے؟ کیا ہر زمانے میں ایک ہی قسم کا اخلاق رہا ہے؟کیا کوئی نظام اخلاق بنایا جا سکتا ہے؟

یھاں مختلف ادبی نظریات کے مکتب فکر مختلف جواب دیتے ہیں-مثلا ترقی پسند ان سوالوں کا جواب نفی میں دیں گی اور بڑی حد تک یہ بات صحیح ہے –شمالی ہند میںایک صدی پہلے عورتوں کا مردوں کی بزم میں جانا نہایت بے غیرتی کی بات سمجھا جاتا تھا لیکن آج اس پر کوئی انگلی نہیں اٹھاتا-مہدی افادی نے پہلی بات اپنی بیوی کو چٹھی لکھی تو اس پر بزرگوں نے بڑی لعن طعن کی-آج بیویاں بھی شوہروں کو خط لکھتی ہیں تو کوئی معترض نہیں ہوتا-زمننے ک فرق کے علاوہ اخلالف مکان کے ساتھ بھی اخلاق کے پیمانے بدلتے جاتے ہیں-ہمارے معا شرے میں عورت نے محرم سے ہاتھ نہیں ملاتی لیکن بعض ممالک میں آپ کے پاس کوئی لڑکی اے تو آپ اکو بوسہ دی کر خوش آمدید کہیں گے تبھی خوش اخلاق کہلاے گے-جبکہ مغرب میں محض نہ محرم کے ساتھ چپک کر رقص کرنا مستحسن سمجھا جاتا ہے مہذب دنیا میں اپنے بھائی کے ناموس پر بری نذر ڈالنا سخت معیو ب ہے-لیکن بعض ملکوں کے پہاڑی علاقوں میں تمام بھائیوں کی ایک ہی مشترکہ بیوی ہوتی ہے-ان مثالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اخلاق کا تصور علاقائی ،طبقاتی اور ہنگامی ہے،آفاقی اور دوامی نہیں

- اخلاقیات اور قانون:

اخلاق محض ان اوامر و نوائی تک محدود نہیں کہ جن کے پیچھے سماجی رواج کا تازیانہ ہے-تین طاقتیں ہیں جو ہمیں اخلاقی اصول پر عمل پیرا رہنے کے لیے اکساتی ہیں :اول سماج،دوم حکومت وقت کے قوانین ، سوم:مذھب-سماجی تنظیم کی نگہداشت کے لیے سب سے بڑی طاقت حکومت ہے جس کے احکام قانون کہلاتے ہیں- چوری نہ کرو ورنہ اتنے سال کی سزا ہو جاے گی –رشوت نہ لو ورنہ فورا ماخوذ کر لیے جاؤ گے وغیرہ-اس صورت میں قانون پروری اور اخلاق ایک ہو جاتے ہیں لیکن اخلاق محض پابندی قانون کا نام نہیں –شہریوں کی زیادہ تر تعداد قانون کی پابندی کرتی ہے-لیکن اخلاقی حثیت سے وہ بے داغ نہیں کہلائی جا سکیں-بالغ لڑکی یہ بیوہ کسی مرد سے تعلقات قائم کر لے تو فریقین میں سے کوئی بھی قانون شکنی کا مرتکب نہیں ہوتا-لیکن سماجی اخلاق کی نظر میں یہ حرکت ضرور قابل گرفت ہے-



About the author

aroosha

i am born to be real,not to be perfect...

Subscribe 0
160