محسن پاکستان ڈاکٹر عبدل قدیر خان - دوسرا اور آخری حصہ

Posted on at


ڈاکٹر عبدل قدیر خان شادی کے وقت تک جرمنی میں ہی مقیم تھے مگر ان کی بیوی کا تعلق ہالینڈ سے تھا اس لئے انہوں نے بھی ہالینڈ جانے کا فیصلہ کر لیا اور اپنی بیوی کے ہمراہ ہالینڈ کا رخ کیا یہاں انہوں نے ڈیلفٹ یونیورسٹی میں داخلہ لیا .  یہاں اس امر کا ذکر بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ ڈیلفٹ یونیورسٹی میں ہالینڈ کے مقامی طلبہ کو بھی ڈگری حاصل کرنے کے لئے ٦ یا ٧ سال تک تحقیق اور جستجو کے کٹھن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے مگر ڈاکٹر عبدل قدیر نے یہاں بھی اپنی بے مثل ذہانت کا لوہا منوایا اور محض ٥ سال کے قلیل عرصے میں ٧٠ فی صد سے زیادہ نمبر حاصل کر ماسٹر آف انجینرنگ کی ڈگری حاصل کر کے ایک ریکارڈ قائم کر دیا . اس کے بعد وہ کچھ عرصہ مشہور پروفیسر برگذر کے ساتھ بطور اسسٹنٹ کام کرتے رہے جس سے ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو مزید جلا ملی . ١٩٦٧ میں قدیر خان نے پاکستان کا رخ کیا مگر یہاں زیادہ عرصہ قیام نہیں کیا اور جلد ہی واپس چلے گئے . انہوں نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری بیلجیم کی کتھولک یونیورسٹی سے ١٩٧٢ میں حاصل کی اور یہی دور تھا جب انہوں نے اپنے استاد پروفیسر برگُزر کے ساتھ مل کر ایک کتاب بھی تحریر کی یہ کتاب ١٩٧٢ میں شائع ہوئی تھی اور اس کا شمار عالمی کلاسک میں ہوتا ہے . تعلیم مکمل کرنے کے بعد ڈاکٹر قدیر خان چاہتے تھے کے درس و تدریس کے شعبے سے منسلک ہو جائیں اور اس مقصد کے لئے وہ ہالینڈ کے دارلحکومت امسٹر ڈیم میں شفٹ ہو گئے اور ہالینڈ کے ایک معروف ادارے میں تدریس کا کام شروع کر دیا 



١٩٧٤ کا دور وہ دور تھا جب پاکستان کے ازلی دشمن بھارت نے ایٹمی دھماکہ کر کے اپنے ایٹمی طاقت ہونے کا اعلان  کر دیا . یہ دور پاکستان کے لئے بہت خطرناک تھا کیوں کہ بھارت پاکستان پر پہلے ہی دو جنگیں مسلط کر چکا تھا اور اب ایٹمی طاقت بننے کے بعد اس کا حوصلہ مزید بڑھ گیا تھا . ڈاکٹر قدیر خان کو پاکستان کے کمزور دفاع کا شدت سے احساس تھا اور وہ پاکستان کے لئے کچھ کر گزرنا چاہتے تھے اسی مقصد کے لئے انہوں نے اس وقت کے وزیراعظم جناب ذولفقار علی بھٹو کو ایک خط لکھا جس میں انہوں نے اس بات کا اظہار کیا کہ اگر ان کو موقع دیا جاۓ تو وہ پاکستان کو بھی ایٹمی قوت کے روپ میں ڈھال سکتے ہیں . ذولفقار علی بھٹو نے ان کو فوری طور پر پاکستان آنے کی دعوت دی اور ہر طرح سے تعاون کا یقین دلایا . اس طرح سے ڈاکٹر قدیر خان ہالینڈ سے پاکستان منتقل ہو گیئے اور اس طرح سے پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کا قیام عمل میں آیا اور اس کا سربراہ ڈاکٹر قدیر خان کو بنایا گیا . کہوٹہ میں ایک لیبارٹری تعمیر کر کے اس منصوبے کا آغاز کر دیا گیا . ڈاکٹر قدیر کے مطابق پاکستان ١٩٨٤ میں ایٹمی قوت ہونے کا اعزاز حاصل کر چکا تھا مگر اس کا باقاعدہ ثبوت ٢٨ مئی ١٩٩٨ کو ملا جب بھارت کے ٥ ایٹمی دھماکوں کے جواب میں پاکستان نے ٦ دھماکے کر ڈالے . اس وقت پاکستان کے وزیراعظم جناب نواز شریف تھے جنہوں نے بے پناہ عالمی دباؤ کے باوجود یہ دھماکے کروا کے پاکستان کو دنیا کی ساتویں اور عالم اسلام کی پہلی ایٹمی طاقت ہونے کے اعزاز دلوایا 



اس سب کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ قدیر خان کی خدمات کے اعتراف میں ان کو کوئی بہت اعلی عہدہ پیش کیا جاتا مگر ہوا اس کے الٹ . ١٢ اکتوبر ١٩٩٩ کو نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا اور پرویزمشرف نے اقتدار سنبھال لیا . جنرل پرویزمشرف کے ساتھ ڈاکٹر قدیر خان کے تعلقات ہمیشہ ہی کشیدگی کا شکار رہے انہی کے دور حکومت میں قدیر خان پر ایٹمی اثاثہ جات کو بیرون ملک فروخت کرنے کا الزام بھی لگا اور بعد میں ان سے اعتراف جرم بھی کروایا گیا اور اس جرم کی پاداش میں ان کو اسلام آباد میں ان کے اپنے ہی گھر میں نظر بند کر دیا گیا. پاکستان کو ایٹمی دفاع سے مزین کرنے اور میزائل ٹیکنالوجی سے لیس کرنے والے ڈاکٹر خان ہی ہیں ایک بھارتی جریدے کے مطابق بہت کم ایسے لوگ ہوں گے جنہوں نے ڈاکٹر اے کیو خان کی طرح خود کو ملک اور قوم کی خدمت کے لئے وقف کیا   


***********************************************************************************************


Click Here To Read More Of My Blogs


Written By.


Hammad Ch.



About the author

hammad687412

my name is Hammad...lives in Sahiwal,Punjab,Pakistan....i love to read and write that's why i joined Bitlanders...

Subscribe 0
160