نظیر اکبرآبادی کی شاعری - تیسرا حصہ

Posted on at


نظیر اکبرآبادی کی شاعری - حصہ اول پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں


نظیر اکبرآبادی کی شاعری - دوسرا حصہ پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں


نظیر اکبرآبادی کی شاعری - تیسرا حصہ



نظیر کی شاعری وہ روحانی صدا ہے جو انسان دوستی، محبت اور ہمدردی کا پیغام ہے- وہ معاشرے کے غم، دکھ، جرائم بھی دیکھتے ہیں اور ایثار و اخوت کا درس بھی دیتے ہیں- مکافات عمل سے بھی ڈرتے ہیں اور صبر و شکر کی تلقین بھی کرتے ہیں- وو ایثار اور درس محبت عام کرکے معاشرتی فلاح و بہبود کا وہ درس دیتے ہیں جو ان کا منصب شاعرانہ بھی ہے یر معلمانہ بھی- وہ انسانی قدروں کے زوال اور ابن آدم کی بے قدری پر اشکبار ہیں- ان کے دل میں ہر مذہب، ہر مرتبے اور ہر عمرکے فرد کے لئےعزت تھی وو کسی کی دل شکنی گوارا نہ کرتے تھے
اس میں شک نہیں کہ انہوں نے امرا اور رؤسا کی عیش پسندیوں اور راحت پر بھی قلم اٹھایا ہے لیکن ان کا انداز کہیں بھی ہمیں طنزیہ دکھائی نہیں دیتا- اگر کہیں تھوڑا طنز ہے بھی تو اس میں وہ کاٹ نہیں جوکہ دل دکھانے کا باعث بنے- اونچے اور نچلے طبقے کا موازنہ نہ کرتے ہوے وہ درحقیقت ایک آفاتی مسلے یعنی معاشی ناہمواریوں اور طبقاتی تقسیم کی تصویر کچھ انداز سے اترتے ہیں کہ امیروں کو عدم مساوات کا احساس دلا سکیں- دونوں صورتوں میں ان کا رویہ ہمدردانہ ہی دکھائی دیتا ہے
نظیر جس موضوع پر بھی قلم اٹھاتے ہیں ایسی زبان استعمال کرتے ہیں کہ ان کی شاعری عوامی زندگی سے ہم آہنگ ہو کر قلوب میں رچ بس جاتی ہیں، وہ وہی زبان استعمال کرتے ہیں جو عوام کی آواز ہے- عام بول چال کے الفاظ ہوں یا محاورے یہ کسی طرح بھی عام آدمی کے لئے اجنبی نہ تھے- یہاں تک کے سوتی آہنگ پیدا کرنے کے لئے بھی ووہی زبان تیار کی جو عوام سے زیادہ قریب تھی- ان کی زبان آگرہ کی بولچلال کے قریب ہے اگرچہ وہ عربی فارسی بھی جانتے مگر ان زبانوں پر مکمل دسترس حاصل نہ تھی
ان کی نظموں میں واضع فنی خوبی نظر نہیں آتی مگر سادہ زبان کا استعمال اور حقیقت نگاری ان کے تخیل کی ناہمواری کو بھی ہم وار کر دیتی ہیں "ڈاکٹر کریم الدین احمد" لکھتے ہیں "کہا جاتا ہے کہ ہر بڑا شاعر اپنی زبان خود بناتا ہے- نظیر نے بھی اپنی زبان خود بنائی ہے، اس کی زبان بھی اس کی اپنی زبان ہے- فارسی اسالیب اور تراکیب کا استعمال کر کے ہندی کے سادہ شرین اور سبک الفاظ استعمال کیے" ان کی شاعری میں ہندوستان کی خوشبو ملتی ہے
نظیر کی زبان کی اثر آفرینی اوج کمال تک پہنچ جاتی ہے جب وو مقامی زبان، وسیغ ذخیرہ الفاظ کے ساتھ ساتھ منظر نگاری کا فن بھی آزماتے ہیں- ذکر میلے ٹھیلے کا ہو یا تہوار کا یا کسی موسم کا پڑھنے والا خود کو اس منظر میں گھوم پاتا ہے ، وہ انسانی فطرت کے نباض بھی ہیں اور ان کی معاشرات کے تقاش بھی
نظیر اکبرآبادی نے منظر نگاری کا کمال مناظر فطرت کی عکاسی میں دکھایا ہے اس سلسلہ میں ان کے مطالعہ فطرت اور مشاہدہ فطرت کو بخوبی دکھایا اور محسوس کیا جاسکتا ہے - برسات کا ذکر ہو یا آندھی کا، اندھیری رات کا ذکر ہو یا چاندنی کا، جاڑے کا ذکر ہو یا بہار کا، نظیر نے تمام تر تجزیات کے ساتھ ہر ،منظر کو یادگار بنا دیا ہے واقعاتی تصویر کشی میں نظیر کو کمال مہارت حاصل ہے- ہولی ہو یا دیوالی، راکھی ہو یا شب برات ، کبوتر بازی ہو یا تیراکی کا مقابلہ وہ واقعات کو الفاظ کے زریعے اس طرح بیان کرتے ہیں کہ پوری تصویر مکمل جزئیات کے ساتھ جلواگر ہو کر قاری کو لطف سے ہمکسنار کرتی ہے، مثال کے طور پر شب برات کا ایک منظر دیکھئے


چہرہ کس کا جل گیا، آنکھیں جھلس گئیں
ٹانگیں بچیں کسی کی تو رانیں جھلس گئیں


چھاتی کسی کی جل گئی باہیں جھلس گئیں
مونچھیں کسی کی چھک گئیں پلکیں جھلس گئیں


نظیر انسانی فطرت اور جذبات کے نقاش بھی ہیں جب وہ انسانی دکھوں پر قلم اٹھاتے ہیں تو وہ دکھ پڑھنے والوں کے دلوں میں اتر کر اس کی آنکھوں کو اشکبار کرتے ہیں اور جب فرحت و انبساط کا عالم دکھاتے ہیں تو خوشی رگ رگ میں پھوٹتی محسوس ہوتی ہے، اس سلسلے میں ان کی نظر معا شی مسائل پر جا کر ٹک جاتی ہے اس گھمبیر مسلے کے غم کو پھیلانے کے لئے وہ انسانی دلچسبیوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں- ان کے ہاں غم غلط کرنے کی یہ ایک موہم سی کوشسش ہے جو انہیں حقیقت سے فرار کا موقع فراہم کرتی ہے- دونوں صورتوں میں ان کے ہاں بیان کا ایک منفرد انداز ہے انہوں نے الفاظ کے زریعے مصوری کا حق ادا کر دیا ہے



About the author

Maani-Annex

I am an E-gamer , i play Counter Strike Global Offence and many other online and lan games and also can write quality blogs please subscribe me and share my work.

Subscribe 0
160