جیسی عوام ویسے حکمران

Posted on at


جیسی عوام ویسے حکمران


یہ حقیقت اظہر من شمس ہے کہ ریاعا اور بادشاہ ، رہنما اور جیالے ، حکمران اور عوام یا جمہور ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہے۔  مضبوط اور دنیا میں اثر و رسوخ رکھنے کے لئے حکومت سازی کے لئے صرف ایک زمین کا ٹکرا نہیں چاہیے بلکہ ایک بلند معاشرتی زندگی کے فرمے میں  ڈھلی عوام بھی چاہیے۔  عوام جنتی معاشرتی طور پر مضبوط ہو گی ملک بھی اتنا ہی مضبوط تصور کیا جائے گا۔  طرز معاشرت میں  تعلیم اور صحت دو مضبوط اکائیاں ہیں۔  تعلیم انسان کے اندر مثبت شعور اجاگر کرنے کے لئے انسان کے دل و دماغ کو سورج کی طرح روشن کر دیتی ہے۔  اچھائی برائی ، جھوٹ سچ، کھوٹا کھرا کی پہچان جیسی صفات پیدا کرتی ہے۔ اگر ان معاشرتی تعمیزوں میں فرق ختم ہو جائے تو معاشرہ اَن گنت بیماریوں میں مبتلا ہو جاتا ہے۔  جس سے معاشرہ نڈھال ، لاغر اور کمزور پڑ جاتا ہے۔



 



صحت مند معاشرہ یا بیمار معاشرہ ، جس قسم کے معاشرے میں افزائش عوام ہو گی ویسے ہی صاحب حکمران ہو گئے اور  ایک ہی طرح کے اذہان کے مالک ہو گئے ۔  تعلیم تمیزوں کو اجاگر کرتی ہے لیکن جب تمیزوں میں عدم مساوات آ جائے تو اس فرق کو نظام عدل کے ترازو سے ان پر قابو پایا جاتا ہے ، معاشرتی بیماریوں کے تدراک کے لئے تعلیم کو اخلاقی بنیادوں پر استوار کیا جاتا ہے اور نظام عدل کو سختی سے مساویت کے ساتھ لاگو کیا جاتا ہے۔  بطور مسلمان اور ملت کے مسلمان کس قدر اسلامی حقیتی تعلیم سے نا شناس ہو چکا ہے جو آج ہمیں اپنے ہی معاشرے میں دہشت خوف، قتل و غارت بد امنی اور بے چینی کی صورت میں نظر آتا ہے۔   اسلام میں عدل پر عمل کرنے کا مطلب ہر گز دہشت کا ماحول بنانا نہیں یا خدا کی دی ہوئی خوبصورتی اور خدوخال کو بگاڑ کر ایسی اشکال بنا دینا جو معاشرے کو امن و آشتی و محبت کے پیغام دینے کے برعکس نفرت کا باعث بنے۔





 


ایسے معاشرے دنیا میں تباہ ہو جاتے ہیں جہاں ناانصافیاں ہوں۔ معاشرہ طبقات میں تقسیم ہو جائے اور طبقاتی نظام میں عدل کا معیار بھی علحیدہ علحیدہ ہو جو اسلام کی تعلیم کی روح کے بالکل برعکس ہے۔  حضور اقدس رحمت دو جہاں ﷺ نے فرمایا جس کا مفہوم ہے کہ تم سے پہلی قوموں کو اس لئے برباد کر دیا گیا کہ ان کے ہاں طاقتوروں اور کمزوروں کے لئے الگ الگ قوانین ہوتے تھے۔ 




یہ فطرت انسانی ہے جو معاشرہ عدل انصاف ، تعلیم و صحت  اور معشیت میں ترقی یافتہ ہو گا  کمزور معاشرے کے لوگ اس کی تقلید کرے گئے۔ ہمارے اکثر دانشور اس بات کو دہراتے نہیں دھکتے کہ ہمیں مغرب کی تقلید کرنے کی بجائے اسلام کے روشن ابواب کی تعلیم کو عام کر کے عمل پیرا ہونا چاہیے۔  لیکن ناعاقبت اندیشی ہے ہمارے زعما و حکمران جو برسا برس سے جانشینی کے دل فریب مزے لے رہے ہرگز نہیں چاہتے۔ نظام عدل عملی طور پر تہس نہس اور عدم مساوات کا شکار ہے۔  ایک چھوٹی سی مثال اس طرح دی جاسکتی ہے ادنیٰ عدالت سے لیکر عدلت عظمیٰ  تک سب منصف حضرات اے سی والے کمروں میں بیٹھ کر اس ملک کے کمزور مظلوم غربت و افلاس کے مارے عوام کے لئے امتیازی فیصلے صادر کرتے ہیں  جس کا ثبوت ہمارے معاشرے میں پھیلتی ہوئی بد امنی، دہشت ، شدت پنسدی  لاقانونیت کی نمو اور افزائش ہے جو عدم مساوات اور ناانصافیوں کی وجہ سے مرتکب ہوتے ہیں۔


آج کے اخبار میں عدالت عظمیٰ کے منصف اعلیٰ کے بیان پرہنسی آئی کہ عوام کو اگر ہم انصاف نہ دے سکے تو خدا کو کیا جواب دے گے۔  ایسے بیان  سے عوام کو انصاف کی امید کی کرن نظر آتی ہے اللہ کرئے ایسا احساس ہمارے  ملک کی اُن اعلیٰ عدالتوں کے منصفوں کو بھی ہو جائے  جو ہر روز بڑے بڑے ڈاکوؤں چوروں کو چند ٹکوں کے حوض ضمانتوں پر رہا کر دیتے ہیں یہ ہرگز مظلوم کی داد رسی نہیں ہے اور طبقاتی نظام عدل یقیناً معاشروں کو برباد کر دیتا ہے جس کا نظارہ ہر روز ہم اپنے گرد نواح میں شدید بغاوت جو ملک کے طول عرض میں پھیلی آگ و خون کی ہولی کی شکل میں ہے دیکھ سکتے ہیں۔


باقی جو چپ رہو گے تو اٹھیں گی انگلیاں


ہے  بولنا  ہی   رسم  جہاں  بولتے  رہو


 



160