هر کالا را شه - حجرے ایک عظیم پختون روایت

Posted on at


پختون ثقافت کی بہت سی خصوصیات میں سےحجرے ایک ہے- اصل میں، یہ پختون ثقافت کا سب سے اہم حصہ سمجھا جاتا ہے. حجرے کو ایک سماجی کلب کے طور پر ترجمہ کیا جا سکتا ہے، پاکستان کے مغربی پہاڑی علاقوں سے افغانستان تک یا دنیا میں کہیں بھی پختون رہتے ہیں وہاں حجرے موجود ہیں
حجرے پختون معاشرے کی سماجی زندگی کے مختلف پہلوؤں کی میزبانی ادا کرتے ہیں خصوصی طور پرمرد آبادی کے آپس کے تنازعات کو حل کرنا ہو یا شادی کی کوئی تقریب ہو ان مقاصد کےلیے حجرے ہی استعمال ہوتے ہیں- تاہم، اب یہ پرانی روایت آہستہ آہستہ ختم ہوتی جا رہی ہے اور اس کی ایک بڑی وجہ جدید دور اور مغربی ثقافت ہے



ایک حجرے کا مقصد کیا ہے ؟
حجرے قبیلے ملکیت ہوتے ہیں اور مرد افراد اس کو چلاتے ہیں، قبیلے کے متمول طبقے کے ارکان فنڈز مہیا کرتے ہیں اس کو برقرار رکھنے اور چلانے کے لیے، اگر کوئی شخص حجرے میں داخل ہو کر حفاظت، خوراک اور پناہ مانگے تو مہمان سے کوئی سوال نہیں کیا جائے گا پہلے اس کو بہترین خوراک اور حفاظت دی جائے گی- اس کے بعد اراکین اس سے پوچھیں گے کہ کیسے اس کی مدد کی جا سکتی ہے اور جب تک وہ چاہے وہ حجرے میں قیام کر سکتا ہے اور جب تک وہ شخص حجرے میں موجود ہے اس کی حفاظت کی ذمداری قبیلے والوں کی ہے، مہمان نوازی پختون لوگوں کا فخر سمجھی جاتی ہے یہی وجہ ہے قبیلے میں موجود سبھی لوگ حجرے میں مہمانوں کی خدمت کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں- مہمان کو انتہائی عزت و احترم دینے ہیں، اور بہترین کھانا کھلایا جاتا ہے



بعض مورخین کے خیال میں حجرے کی روایت پختون لوگوں نے یونان سے اپنائی ہے، یونانی جمہوریت کی طرح پختون قبیلوں میں جمہوری فیصلے کرنے کا ایک نظام ہے حجرے قبیلے کے لئے ایک ریاستی کونسل کے طور پر کام کرتے ہیں، جب بھی کوئی تنازعہ ہو جرگہ کے ارکان کا ایک اجلاس منعقد کیا جاتا ہے اور باہمی مشاورت کے بعد فیصلہ سنایا جاتا ہے جس پرعمل کرنا سبھی کے لئے لازم ہوتا ہے، قتل ہو یا اغوا، یا کوئی اور جرم تمام تنازعات کو عام طور پر اس کونسل کے ذریعے حل کیا جاتا ہے
حجرے روایت میں ارسطولین لائسیم کی بڑی حد تک مماثلت موجود ہے، یہ ایک اسکول کا کام بھی کرتا ہے جس میں تعلیم کے ساتھ ساتھ عملی علم بھی دیا جاتا ہے، قبیلے کے مختلف ارکان مختلف پیشوں سے وابستہ ہوتے ہیں اورکچھ کے پاس زندگی کے تجربات ہیں جو وہ باقی لوگوں کو منتقل کرتے ہیں، اگہر آپ کو کسی ایک حجرے کا دورہ کرنے کا اتفاق ہوآپ کو تعجب ہوگا یہ لوگ کبھی اسکول نہیں گئے ہونگےلیکن وہ ادویات کے بارے میں گفتگو کر رہے ہونگے اور اگلے ہی دن آپ کو کاروبار کی ناکامی اور کامیابی پر بات کرتے نظر آتے ہیں، یہاں تک کہ موسم کی پیشن گوئی تک کر سکتے ہیں
میرے دادا جوکہ کبھی بھی اسکول نہیں گئے تھے، ایک دن انہوں نے دواؤں اور پودوں پر اپنی تحقیق کے بارے میں مجھے بتایا اور کچھ سوال کیے، سب سن لینے کے بعد میں نے اسے ایک مبہم جواب دیا کیونکہ مجھے ان کی باتوں کا یقین نہیں تھا، اس کے بعد انہوں نے مجھے تفصیل سے بتایا ملیریا جیسی بیماریوں کے علاج کے لئے ہربل ادویات کا استعمال کر سکتے ہیں- جب میں اپنے ہاسٹل واپس گیا اور اپنی کتابیں پڑھیں یہ دیکھ کر میں حیران رہ گیا جو کچھ انہوں نے بتایا اور جس جس چیز کی وضاحت کی وو بلکل درست تھیں
کسی بھی حجرے میں چارپائی لازمی ہوگی اور ساتھ میں ایک یا دو تکیہ رکھے ہونگے، لوک موسیقی کے آلات خاص طور پر رباب، اس کے علاوہ ایک عدد حقہ یا چلم ہر حجرے میں پایا جاتا ہے- قبیلے کے بہت سے نوجوان مستقل طور پر حجرے میں رہائش پذیر ہوتے ہیں ہر قبیلے میں کچھ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو لوک گانے گاتے گاتے ہیں اور موسیقی کے آلات میں مہارت رکھتے ہیں، زیادہ تر لوک گانے پیار و محبت، میدان جنگ میں حوصلہ افزائی، شہداء کی تعریف اور ان کی جرات مندی کے ارد گرد گھومتے ہیں
یہ ستم ظریفی ہے کہ حجرے میں موسیقی باقاعدہ ہوتی ہے اور اس کی مکمل سرپرستی بھی کی جاتی ہے لیکن پھر بھی موسیقی کے پیشے کو پختونوں میں ایک بری نظر سے دیکھا جاتا ہے، جیسے کے غنی خان کہتے ہیں، پختون موسیقی سے محبت کرتا ہوں لیکن موسیقار کو پسند نہیں کرتا
حجرے میں تعلیم، میں نے ان اجتماعات میں باقاعدگی سے شریک ہوا کرتا تھا بعد میں مجھے تعلیم کے لئے ایک ہاسٹل میں منتقل کردیا گیا- جس حجرے میں، میں جایا کرتا تھا اس کی تعمیر قیام پاکستان سے پہلے کی ہوئی تھی، ہر شام مغرب کی نماز کے بعد سب وہاں وہاں شرکت کرتے تھےعمائدین اس بات کا خیال رکھتے تھے کہ سب لوگ اس میں شریک ہوں اور اگر کوئی غیر حاضر ہو تو اس کے بارے میں پوچھا جاتا تھا- جب تک سب لوگوں حاضر نہ ہو جائیں رات کا کھانا شروع نہیں کرتے تھے، ایک بار جب سب موجود ہو جائیں اس کے بعد زمین پر دسترخوان بچھایا دیا جاتا تھا اور سب مل اس کے اردگرد بیٹھ جاتے تھے، کسی کے درمیان کوئی فرق نہیں رکھا جاتا تھا خوا وو نوکر ہے یا کوئی پروفیسر، اور سب اس وقت تک نہیں اٹھ سکتے تھے جب تک سب لوگ اپنا اپنا کھانا ختم نہ لیں



رات کے کھانے کے بعد سب گرم قہوہ پیتے اور اپنے دن کی مصروفیات اور دن کسے گزرا کے بارے میں بات چیت کرتے تھے، ہم لوگ کسی بے موضوع پر بات کر لیا کرتے تھے جیسا کہ عالمی سیاست، گاؤں کی زندگی، بیمار کبوتر کے علاج کے بارے میں اور یہیں سے ہمیں ایک دوسرے کے تجربوں سے بہت کچھ سیکھنے کو مل جاتا تھا، تقریبا دو گھنٹے غروب آفتاب کے بعد چھوٹے بچوں کو گھر جانے کو کہ دیا جاتا تھا جبکہ بارے لوگ اپنی بات چیت جاری رکھتے تھے کچھ ٹائم بعد عمائدین اور بڑے بزرگ بھی چلے جاتے تھے اس کے بعد نوجوان لڑکے موسیقی لگا دیتے تھے اور لوک گیت گاتے تھے یہ سب رات گئے تک چلتا رہتا تھا
حجرے صرف ایک سماجی اجتماع کے لئے نہیں ہیں، یہ لوگوں، سیاست، موجودہ واقعات اور عالمی معاملات پر بات کرتے جس سے بچوں بڑوں سبھی کو روز کچھ نہ کچھ سیکھنے کو ملتا ہے- یہ ایک قسم کی رسمی تعلیم بھی ہے اور سماجی مہارت حاصل کرنے کا طریقہ بھی
جیسے کے زمانہ بدل رہا ہے معاشرے میں جدیدیت شامل ہو رہی ہے حجرے کی ثقافت اس لہر سے بری طرح متاثر ہو رہی ہے، مغربی جمہوریت اور عدالتی نظام کے نفاذ نے حجرے کے ایک کونسل اور کورٹ کے طور کردار کو تقریباً ختم کر دیا ہے- ہوٹل اور ریستوران ابھر کر سامنے آئے ہیں اور حجرے مہمان نوازی سے محروم ہو رہے ہیں، کیبل ٹیلی ویژن کی آمد کے ساتھ لوگوں کو عام طور پر ان کے گھروں میں رہنے کی عادت ہو گئی ہے اور اگہر وو حجرے میں آتے بھی ہیں تو وہاں بھی ٹیلی ویژن کے ساتھ چپکے رہتے ہیں اورعلم کی کوئی منتقلی یا سیاسی و سماجی گفتگو نہیں ہوتی-نوجوانوں وینچر کے طور پر باہر بہترتعلیم کے لئے بڑے شہروں کا رخ کر رہے ہیں اس لئے وہ بھی حجرے اور دیگر سماجی سرگرمیوں سے دور ہیں
اس طرح کمیونٹی کو چلانے کے لیے حجرے دن بہ دن کم ہوتے جا رہے ہیں، جو تھوڑے بہت حجرے بچے ہیں وہ زیادہ ترامیرلوگوں ملکیت ہے اور بنیادی طور پر سیاستدانوں کی طرف سے چلائے جاتے ہیں اور ان حجروں میں آنے والی لوگوں کی ایک بڑی تعداد اپنے فارم واستغفار یا ذاتی کام کروانے کی غرض سے آتے ہیں- وہ حجرے جہاں امیر اور غریب سب برابر ہوا کرتے تھے وہاں آج امیر اور بااثر لوگ قابض ہیں جہاں لوگ صرف اور صرفوہ اچھے روزگار یا سفارشات حاصل کرنے کے لئے جاتے ہیں-بدقسمتی سے روایتی حجرے اب وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) کی قبائلی پٹی تک محدود رہ گئے ہیں، اور وہ بھی تقریباً آج تباہی کے دہانے پر کھڑے ہیں
صرف مستقبل ہی ہمیں بتا سکتا ہے اس نظام کا خاتمہ کر کے ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا- لیکن ہم یہ یقین سے کہ سکتے ہیں کہ پختون ثقافت کا ایک اہم حصہ تیزی سے دندل میں دھنستا جا رہا ہے اور تیزی کے ساتھ ختم ہو رہا ہے


 



About the author

Maani-Annex

I am an E-gamer , i play Counter Strike Global Offence and many other online and lan games and also can write quality blogs please subscribe me and share my work.

Subscribe 0
160