بنت حوا – حصہ دوم

Posted on at


 بنت حوا – حصہ اول


اب ایک نظر ہمارے پیارے اسلامی جمہوریہ پاکستان پر اور اس میں ہونے والے بنت حوا کے سلوک پر- ویسے تو کہنے کو ہم نے یہ وطن اسلام کی بلادستی اور اس میں اسلامی اصول نافز کرنے کے لئے حاصل کیا تھا- لیکن ہمارے حکمران اور آج کی عوام اس بات کو مکمل طور پر بھول چکے ہیں کہ یہ ملک ہمیں کس طرح ملا ہے، اور کس کس طرح کی قربانیاں دیں ہیں ہمارے آباواجداد نے اس ملک ہو حاصل کرنے کے لئے، لیکن ہم اور ہمارے حکمران کا اس سے لیا لینا دینا کی انہوں نے کون کون سے قربانیاں دیں ہیں، ہیں تو بٹھے بٹھاۓ ہی ایک آزاد ملک مل گیا ہے حکمرانی ک لئے اور عوام مل گی ہے حکم چلانے کے لئے


انسانی تاریخ کے ضبط تحریر میں آنے سے پہلے بھی کچھ غیر انسانی سوچیں عورت کو جنس بازار تصور کرتیں تھیں- اور بد قسمتی سے ہزاروں سال گزر جانے کے بعد وہ حیوانیت اور درندگی آج بھی ہمارے اپنے وطن عزیز میں زندہ ہے- بنت حوا کو گائے وار بکریوں کی طرح خریدنے اور بیچنے کا یہ سیاہ دھندہ آج اکیسویں صدی میں بھی جاری ہے اور خریدی گئی عورت کو کاٹنے، جلانے، نوچنے یہاں تک کے مار ڈالنے کی وحشنه رسم آج بھی اس دنیا کے ماتھے کی کالک ہے- اور اس سے بھی افسوس کا مقام یہ ہے کے لاکھوں بہنوں اور بیٹیوں کی حرمتوں کی قربانیوں کے بعد حاصل کیا گیا یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان اس لعنت سے محفوظ نہیں ہے، یہاں پر بھی یہ کاروبار اپنے عروج پر ہے


اس زمین پر پہلا قتل قابیل نے ہوس کا شکار ہو کر اہل ہابیل کا کیا تھا، اور آج تک یہ قابیل ہوس اور حسد کے دودھاری خنجر سے بچے کچھے ہابیلوں کا شاکر کرتے ہیں- ہوس کا شکار انسان زلت کی کن پستیوں منے جا گرتا ہے، کیسے گند اور تفن میں اپنے لئے دو گھڑی کا آرام ڈھونڈ سکتا ہے- یہ اس مظلوم لڑکی کے ساتھ کیے جانے والے سلوک سے لگایا جا سکتا ہے، جس کو ایک بھرے شہر میں چلتی بس میں اپنی شہوت کیلئے استعمال کیا گیا تھا، لیکن اس کی مدد کے لئے ایک بھی غیرت مند موجود نہیں تھا- یہ واقعہ ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں حوا تھا، جس نے پوری دینا کے انسانوں کے لئے ایک سوالیہ نشان پیدا کر دیا تھا کہ کیا یہ ہے مہذب دنیا جہاں عورت کو مکمل آزادی حاصل ہے، اور اس ہونے والے احتجاج نے بھارت کی تمام رادھاؤن کو یہ اعتماد دیا کہ وہ اکیلی نہیں، ان کا عظیم احتجاج پوری دنیا کے لئے پیغام ہے کہ ذلیل ترین گناہ پرخاموش رہنا بھی قبیح ترین فعل ہے- اس لڑکی کے مجرموں کو تو بھارت کی حکومت نے پھانسی کی سزا سنا دی آوٹ جس پر عمل بھی کر دیا گیا


لیکن اب ذرا ایک نظر مے پیارے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہونے والے واقعہ پر، ویسے تو اس طرح کے روز سننے کو ملتے اور اخبار میں پڑھنے کو ہوتے ہیں، لیکن جس کا یہاں ذکر کیا جا رہا ہے، اس میں ایک بھائی نے اپنی بہن کی عزت کے لئے اپنی جان تک دے دی پر ہماری حکومت وقت اور عوام کو اس کا ذرا بھی افسوس نہیں-


جی ہاں وہ ہی شاہ زیب جس نے اپنی بہن کی طرف اٹھنے والی غلیظ نگاہوں کو جھکانا چاہا تو اس کو گولی مر دی گئی، یوں ایک ہنستھ بولتا، نوجوان بنت حوا کی انرو کے لئے مارا گیا- باقی بچے ہم اور ہماری حکومت جو صرف افسوس کرتے رہ گئےم نام نہاد سول سوسایٹی ہاتھوں میں چند پلے کارڈ لی کر کراچی کے پریس قلب کے سامنے کھرے ہی گئے اور بس، یہ تھا ہمارا احتجاج


لیکن نا تو وہ عوام باہر نکلی جو رات 2 بجے بھی اونی پارٹی کے کہنے پر اپنے گھروں سے نکل آتی، نا ہی وہ عوام جو عمران خان کے کہنے پر مزار قائد پر جمع ہوئی تھی، اور نا ہی وو عوام جو جماعت اسلامی کی ریلیوں میں اسلام نافذ کرتی پھرتی ہیں- شاہ زیب نے تو اپنی بہن کے لئے اپنی جان دے دی، لیکن یہنا بنت حوا سوچنے لگی ہے اگر ہمارے ساتھ بھی کسی نے نازیبا حرکت کیں تو ہمیں خاموش ہی رھنے چاہیے ورنہ ناحق مہرے بھائی مارے جائیں گے اور پیچھے بولنے ولا بھی کوئی نہ ہو گا


جو کچھ بھارت میں ھوا اس سے زیادہ گھناونے واقعات ہمارے وطن عزیز میں پیش آ چکے ہیں، یہاں تو بنت حوا کو سربازار برہنہ پھرایا گیا ہے، لیکن کھین کوئی ہلکا سا بھی احتجاج نہیں، لباس میں، بول چال میں ، شادی بیاہ میں ہندوانہ رسمیں مستعار لینے والے ان سے یہ بھی سیکھ لیتے کہ احتجاج کیسے کیا جاتا ہے- کیسے پراے کی تکلیف کو اپنا سمجھا جاتا ہے، کیسے کسی دوسرے کے لئے اپنے مفادات چھوڑے جاتے ہیں، بھگوان کو ماننے والوں نے تو رادھا کی بیٹی کو اعتماد دے دیا، لیکن الله کو ماننے والے کب انسان ہونے کے رتبے کو پائیں گے


ان سب کے بارے میں بس یہ ہی کہنا چاہتا ہوں


سنا ہے، پڑوس سے جواں عزت کا جنازہ اٹھا ہے


سنا ہے، وہاں رادھا کی بیٹی کو کچلا گیا ہے


سنا ہے، وہاں بھگوان کو ماننے والے انسان دکھائی دیتے ہیں


برہمن ہوں یا شودر – رادھا کی آرٹ کیلئے اکائی دیکھائی دیتے ہیں


سنا ہے، وہ احتجاجا اپنے گھروں کو جاتے نہیں


اٹل ہیں اپنے ارادے میں ہونے مقصد سے اکتاتے نہیں


 


کیا تم نے سنا ہے؟


اک جنازہ ہمارے یہاں بھی اٹھا ہے


نبٹ حوا کی آبرو بچانے لئے اک بھائی مر گیا ہے


چند اک ہزار خدا کو ماننے والے بھی احتجاجا سڑکوں پر آتے نہیں


مسلمان بنے بیٹھے ہیں حجروں میں


شمشر اٹھاتے نہیں، میدان جنگ کو جاتے نہیں


رادھا کی بیٹی کے تو محافظ ہیں لاکھوں – یہاں بنت حوا اکیلی ہے


 Written By: Khurram Shehzad



About the author

DarkSparrow

Well..... Leave it ....

Subscribe 0
160