شمالی وزیرستان آپریشن کا پس منظر

Posted on at


پاکستان کو گزشتہ ١٢ سال سے بدترین قسم ریاستی دہشت گردی سامنا ہے، اب تک ٥٠،٠٠٠ سے زائد شہری اس جنگ ہلاک ہو چکے ہیں، پاکستان فوج کی تقریبا ایک تہائی تعداد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مصروف ہے اور جانی نقصان بھارت کے ساتھ ہوئی جنگوں سے بھی زیادہ ہے- وزیرستان پاکستان میں تمام دہشت گردانہ سرگرمیوں کا مرکز ہے اور دنیا میں کہیں بھی دہشت گرد پکڑے مارے جاتے ہیں ان کا کہیں نہ کہیں کوئی لنک ضرور شمالی وزیرستان سے ملتا ہے- ٢٠٠٩ میں جنوبی وزیرستان میں فوجی آپریشن کر کے دہشت گردوں کا مکمل صفایا کر دیا گیا تھا لیکن بغض وجوہات کی بنا پر شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کو ملتوی کر دیا گیا 



شمالی وزیرستان افغانستان پر سوویت یونین کے حملے کے دوران تمام سرگرمیوں کا مرکز بنا رہا. ٨٠ کی دہائی میں جہادی دنیا بھر سے سوویت یونین کے خلاف لڑنے کے لئے پاکستان آے اور ١٩٨٠میں سی ائی اے نے پشاور میں امریکہ سے باہر اپنا سب سے بڑا ہیڈ کوارٹر قائم کیا- صرف جہادی لٹریچر تقسیم کرنے کے لئے فنڈنگ ​​سے سی ائی اے سوویت یونین کے ہاتھوں ویت نام میں ہوئی شکست کا بدلہ لینے میں کامیاب ہوگئی لیکن جاتے جاتے پیچھے بندوق،گولی اور میزائل چھوڑ گئی، ایک ایسے خطے میں جو ایسے لوگوں سے بھرا پڑا تھا جو ان کا استعمال کرنے میں خوش تھے
١٩٩٠ کے آخر میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد جو جنگجو سوویت یونین کے انخلاء کے بعد اپنے اپنے ممالک واپس چلے گئے تھے انہوں نے افغانستان کواپنے لئے ایک محفوظ جگہ پایا اور واپس آگئےاور اسامہ بن لادن کی القاعدہ ایک عظیم اسلامی امارات افغانستان سے لے کر میانوالی تک کے قیام کے خواب دیکھنے لگی جس کا دارالحکومت باجوڑ کو بنایا جانا تھا- یمن سے نکلنے کے بعد اسامہ بن لادن نےخوست میں اپنے کیمپ قائم کیے جوکہ شمالی وزیرستان سے ملحق ہے- ایک مظبوط فوج تشکیل دینے کے لئے مختلف ممالک ازبک، چیچن، تاجک، چینی اور پاکستانیوں کو ٹریننگ دی گئی



طالبان حکومت اور کیمپوں نے پاکستان میں اثرات ظاہر کرنا شروع کر دیا اور پاکستان کے بہت سے حصوں میں طالبان منظّم ہونے لگے جن کو مقامی طالبان کا نام دیا گیا- یہ ١٨ اگست ١٩٩٦ کی بات ہے جب امریکی بحری جہاز سے میزائل اسامہ بن لادن کو مارنے کے لئے فائر کیے گئے تمام میزائل پیشگی اجازت کے بغیر پاکستان کی فضائی حدود سے گزرے لیکن اس وقت کے وزیر اعظم جناب نواز شریف پورے واقعہ کے بارے میں خاموش رہے



افغانستان پر نیٹو کے حملے کے بعد افغان طالبان غائب ہو گئے. پاکستان کو اپنے لیے محفوظ تصور کرتے ہوئے بعض طالبان اعلی قیادت ( القاعدہ بھی ) پاکستان میں منتقل ہو گئی اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں پناہ حاصل کر لی، اسامہ بن لادن جو توڑا بورا میں پھنسے تھے امریکی ان کو پکڑنے کی بجائے جلال آباد کے مقامی افغانوں کوگرفتار کرنے میں لگے رہے اور اس طرح اسامہ بن لادن بھی فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے اور القاعدہ کو شمالی اور جنوبی وزیرستان میں منظّم کیا
پاکستانی فوج نومبر ٢٠٠١ میں خیبر، کرم ایجنسی، دسمبر٢٠٠١ جنوبی وزیرستان اور اپریل ٢٠٠٢ میں شمالی وزیرستان میں داخل ہوئی جس کا مقصد القاعدہ کی آمد کو روکنا تھا- تاہم، ایک وسیع اور غیر محفوظ سرحد کو اس وقت دستیاب فوجیوں کی مدد سے محفوظ نہیں کی جا سکتی تھی، امریکی گولہ باری، بم دھماکوں کی افغانستان سے براہ راست کوریج افغان اور القاعدہ کے لئے لوگوں کے دلوں میں ہمدردی پیدا کرتی رہیں
جون ٢٠٠٢ جنوبی وزیرستان میں کازا پنگا مقام پر پاکستان فوج کے دو افسران اور آٹھ فوجی شھید ہوئے جس کی ذمداری ازبک گروپ طاہر یلداشیف نے قبول کی ، اس واقعہ کے بعد پہلی بار القاعدہ کو ایک دشمن تسلیم کیا گیا- اس وقت تک وہ اچھی طرح منظّم ہو چکے تھے کچھ مقامی لوگوں نے ہمدردی اور کچھ نے امریکن ڈالرز کی خاطر انہیں پناگاہیں مہیا کی، یوں تو طالبان ١٩٩٨ کے بعد سے فاٹا اورخیبر پختونخواہ میں سرگرم تھے لیکن ان کی سرگرمیاں سی ڈی کی دوکانیں جلانے تک ہی محدود تھیں-تاہم القاعدہ پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں لانے میں کامیاب رہا
اسی دوران مولوی نذیر کے حامیوں اور غیر ملکیوں میں تصادم ہوا جس کے نتیجہ میں الزامات ثابت ہونے پر غیر ملکیوں کو جنوبی وزیرستان سے باہر نکل دیا گیا، اس کے بعد زیادہ تر غیر ملکیوں نے شمالی وزیرستان اور میر علی کے ارد گرد کے آبادی والےعلاقوں کا رخ کر لیا، ٢٠٠٧ میں میں محسود کی طرف سے تحریک طالبان پاکستان کے قیام کے بعد ان کی کاروائیوں میں تباہ کن حد تک تیزی آگئی




پاکستان آرمی سوات سے جنوبی وزیرستان ایجنسی تک پھیل چکی تھی اور حالات کو دیکھتے ہوئے فوج نے مقامی طالبان کے ساتھ امن معاہدہ کر لیا، جس کا بعد میں بہت بڑا نقصان اٹھانا پڑا، طالبان نے جگہ جگہ 'اصلاحی کمیٹی' نامی اپنے دفاتر کھول لئے اور وہ طالبان کی سرگرمیوں کے مراکز بن گئے، اس کے کچھ عرصہ بعد ہی طالبان نے قبائلی پولیٹیکل ایجنٹ، قبائلی رہنماؤں سمیت بااثر شخصیات کو قتل کیا اور ایک نیا حکم نامہ جاری کیا فوج اپنے کیمپوں تک محدود رہے
٢٠١٠ میں آرمی نے شمالی وزیرستان میں ایک کارروائی کا منصوبہ بنایا تھا لیکن آخری وقت میں ملتوی فیصلہ ملتوی کیا گیا، اس کے بعد ٢٠١٢ میں فوج نے ایجنسی کو صاف کرنے کا فیصلہ کیا اضافی فوج کارروائی شروع کرنے کے لئے بھیجی گئی لیکن پھرممکنہ ردعمل کے خوف سےآپریشن شروع نہیں کیا گیا، اب فیصلہ آخر کیا گیا ہے کہ پیشہ وارانہ طریقوں سے آپریشن شروع کیا جائے اورعلاقہ شرپسندوں سے خالی کرایا جائے، فوج کے پاس کافی وقت موجود تھا ٢٠١٠ کے پلان کی منصوبہ بندی پر نظر ثانی کرے اور موجود خامیوں کو ختم کرے- تین علاقوں پر خاص توجہ اور منصوبہ بندی کی ضرورت ہو گی. میرعلی اور اس کے ارد گرد کے دیہات میں غیرملکیوں کی بڑی تعداد میں موجودگی کی وجہ سے آپریشن کافی مشکل ہوگا، افغانستان سے انخلا کے بعد کافی بڑی تعداد میں غیر ملکی یہاں آباد ہوے تھے اور بعد میں جن غیر ملکیوں کو مولوی نذیر نے جنوبی وزیرستان سے باہر دھکیل دیا تھا وہ بھی یہیں آباد ہو گئے
گاؤں میں بھاری آبادی ہے اور قریب قریب ہیں، محسود کی ایک بڑی تعداد بھی ٢٠٠٩ میں آپریشن کے نتیجے میں جنوبی وزیرستان سےنکالے گئے محسود کی ایک بڑی تعداد بھی یہاں رہ رہی ہے- میران شاہ کے ارد گرد بھی بہت سخت اور شدید لڑائی توقع ہے لیکن فوج کو فائدہ حاصل ہے زیادہ ترعلاقے میں ٹینک فوج کی مدد کر سکتے ہیں- زیادہ ترعلاقہ پہاڑی ہے اور گھات لگا کر حملہ کرنے کے لئے عمدہ جگہ ہے ، فوج کو ہیڈ کوارٹر کے قریب کےدیہاتی علاقے جسے کہ چشمہ ڈانڈے ڈراپا، خیل ماچس میں سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑھ سکتا ہے، شوال اور ڈیٹا خیل کے دیہات فضائی طاقت کے ذریعے زیر کیے جا سکتے ہیں- القاعدہ کی زیادہ تر قیادت پہلے ہی ڈرون حملوں میں ختم کی جا چکی ہے اور حقانی گروپ افغانستان واپسی اختیار کر رہا ہے، باقی کے لڑنے اور مزاحمت کرنے کی کوشسش کریں گے لیکن ایک بڑی تعداد واپس افغانستان کا رخ کرے گی اور ان میں سے بہت سے ہمارے شہری علاقوں کا رخ کریں گے- فوجی آپریشن کی کامیابی کا انحصار انٹیلی جنس ایجنسیوں کی رپورٹس اور پولیس پر بھی بہت زیادہ انحصار کرے گا




٢٠١٠ سے لے کر آج تک کی دہشت گردانہ کاروائیوں کو دیکھتے ہوے شمالی وزیرستان کو دہشتگردوں سے صاف نہ کیا تو دہشتگرد ہمیں ٹکڑوں میں کاٹ ڈالیں گے- وقت گزرنے کے ساتھ سازشی نظریہ بے دم توڑتا جا رہا ہے کہ فوج اچھے طالبان کو ختم نہیں کر رہی اور اب شمالی وزیرستان تحریک طالبان پاکستان کے ہمدردوں کے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ بن گیا ہے- پاک فضائہ نے پاکستانی میڈیا اور سیاست دانوں کے نوٹس کے بغیر باجوڑ، خیبر، سوات اور اورکزئی میں بمباری کی تھی جس پر بہت شور مچا تھا اور اس وقت وزیرستان میں آپریشن کی باتیں بھی ہو رہی تھیں جس کی اس وقت تحریک طالبان پاکستان کی حامی سیاسی جماعتوں نے سخت مخالفت کی تھی- دوسری طرف کچھ لوگوں کا خیال تھا شمالی وزیرستان سے کچھ لوگوں کا خاتمہ کر کے پاکستان میں دہشت گردی کا خاتمہ ہو جائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا- دہشت گردی اب ہمارے معاشرے کا حصہ بن چکی ہے، ہمارے شہر دہشت گردوں کے سلیپر سیل بن چکے ہیں جب ان کا دل چاہتا ہے حملہ کر دیتے ہیں- اس کے باوجود وزیرستان میں اس آپریشن سے شاید کچھ دہشت گردی کم ہو جائے گی-اس آپریشن سے دہشت گردوں کا کمانڈ اینڈ کنٹرول مرکز ٹوٹ جائے گی
وزیرستان آپریشن چند ہفتوں یا مہینوں لگ سکتے ہیں لیکن دہشت گردی کے خلاف جنگ ہمیں پورا پاکستان میں لڑنا ہوگی اور یہ ایک طویل جنگ ہوگی


 


 



About the author

Maani-Annex

I am an E-gamer , i play Counter Strike Global Offence and many other online and lan games and also can write quality blogs please subscribe me and share my work.

Subscribe 0
160