بھوک اور افلاس ایک عالمی مسئلہ (حصہ دوئم

Posted on at


ایک اور عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق ہر سال سولین سے زیادہ بچے پیدائش کے وقت ھی کم وزن ہونے کی وجہ سے اس دنیا میں آنکھ کھولنے سے محروم رہ جاتے ہیں۔ عالمی سطح پر مدرز ڈے منانے والے یہ نہیں جانتے کہ دنیا میں 50 لاکھ سے زیادہ مائیں خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ھیں اور ان میں سے 30 ھزار مائیں ھر سال موت کی آغوش میں سو جاتی ھیں۔

اس کے ساتھ ساتھ ایسے افراد کی ایک بڑی تعداد کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتاجو سانسوں کی ڈور کو باندھے رکھنے کے لئے کچھ نا کچھ کھا تو ضرور لیتے ھیں مگرخوراک کا صحیح پورشن نہ ملنے کی وجہ سے مختلف قسم کی بیماریوں میں مبتلہ ھو کر سسک سسک کر زند گی گزار رہے ھیں۔ گویا آج کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی بھوک و افلاس دنیا کی سب سے بڑی موزی بیماری بنی ھوئی ھے جس کی حالت کا اندازہ اس طرح سے لگایا جا سکتا ھے کہ دنیا کے 1 ارب 20 کروڑ انسان یومیہ 1 ڈالر پر کزارہ کر رہے ھیں۔

اس صورت حال کی پیداوافزائش کے ذمےدار عقل و دانش، فہم وفراست اور علم و تجربے سے مبرہ اور اپنی حرص و تمنا کی بھوک مٹانے والے اعلی حکمرانون کی ناقص پولیسیاں ھیں جنہوں نے ملک کی اک تہائی آبادی کو بلک بلک اور سسک سسک کر زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا ھے۔ اللہ ان نااہل حکمرانون کو عدل و انصاف کرنے کی ہمت و توفیق عطا فرمائے۔ آمین



About the author

ahadaleem

I m Muhammad Aleem from Chishtian, Distt. Bahawalnagar. I have done my MBA Finance from University of Lahore, Lahore.

Subscribe 0
160