ادب اور اخلاق (٣(

Posted on at


اخلاق ایک سماجی تصور ہے-سماج کے باہر ریاضت ہو سکتی ہے لیکن اخلاق کا مظاہرہ یا فقدان نہیں ہو سکتا –ایک جزیرے میں تنہا رهنے والا رابنسن کروسو نہ جھوٹ بول سکتا ہے،نہ چار سو بیسی کر سکتا ہے،نہ کسی کو دغا دی سکتا ہے ،کسی کا بھلا کر سکتا ہے نہ برا –جب دوسرا انسان ہی نہیں تو اخلاق کس کے ساتھ برتا جاے – اس میں دوراہیں نہیں ہو سکتیں کہ خوش اخلاق مستحسن ہے اور بناخلاق مذموم –جو کچھ انسان اور سماج کی اصلاح کرے وہ قابل قدر ہے،جو اخلاق کے انھطاط کی طرف لے جاے وہ قابل نفرین ہے-

لیکن متحدد ایسے کام ہیں جو اخلاق کو نہ فائدہ پہنچاتے ہیں نہ نقصان ،یعنی غیر اختلافی ہیں- یعنی ھمارے اقوال و افہال کا برا حصہ ایسا بھی ہوتا ہے جو اخلاقی قدروں سے غیر متہلق ہے جو نہ مصلح اخلاق ہے مہ مخرب بلکہ غیر اختلافی ہے-مثلا صبح اٹھ کے ٹہلنے جانا،غسل کرنا،کھانا کھانا،مضمون لکھنا سونا-یہ اور اس قبیل کے کام ہمارے کردار کو نہ اوپر اٹھاتے ہیں نہ نیچے گراتے ہیں-

ادب اور اخلاق :

کیا اچھا ادب ووہی ہے جو اصلاح اخلاق کرے ؟کیا اخلاق سے غافل رہ کر بھی کوئی ادب پارہ بہترین ادب میں جگہ پا سکتا ہے؟یھاں ایک بنیادی سوال اٹھ کھڑا ہوتا ہے کہ ادب کا مقصد کیا ہے؟ زمانہ قدیم سے ایک بحث چلی آ رہی ہے کہ ادب کا مقصد اصلاح و تلقین ہے کہ مسرت بخشی –

اخلاق کا محتسب ہمیشہ رندوں اور فنکاروں کے پیچھے پڑا رہا ہے ایسا ہی ایک محتسب افلاطون تھا-اس نے ہومر پر اعتراض کیا کہ اس نے دیوتاؤں کو بد اخلاق بنا کر پیش کیا-یونانی ادیبوں پر اسے اعتراض تھا کہ ان کی تخلیقات میں فاسق و فاجر عیش کرتے ہیں اور نیک لوگ تکلیف اٹھا تے ہیں –اخلاق عامہ پر ایسے بیانات کا اثر اچھا نہیں ہوتا-ارسطو نے ادب کی اصلاح اخلاق کی بجاے مسرت دہی قرار دی –حالانکہ اس نے بھی المیہ ڈرامے کو اس لیا سراہا کہ اس میں غم و الام کی یورش دیکھ کر تہذیب جذبات اور تزکیہ نفس یعنی کھتار سس ہو جاتا ہے-



About the author

aroosha

i am born to be real,not to be perfect...

Subscribe 0
160