اپنی بیٹی سے محبت کرنے والے باپ کی دکھ بھری آواز

Posted on at


اپنی بیٹی سے محبت کرنے والے باپ کی دکھ بھری آواز


٢٠ اگست، ٢٠٠١ اسلام آباد ائیرپورٹ
میں نے اپنی ١٧ سالہ بیٹی کو خدا حافظ کہا، میری اکلوتی اولاد- وہ امریکا اپنے کالج پڑھنے جا رہی تھی- اسے ایک مکمل اسکالر شپ پر ییل یونیورسٹی نے منتخب کیا تھا جوکہ ہمارے لئے ایک اعزاز کی بات تھی، ہمیشہ کی طرح میری بیٹی نے ایک بار پھر میرا سر فخر سے بلند کر دیا تھا
روتے ھوئے میں نے اس کو گلے لگا لیا اور اس کے کان میں سرگوشی کی
واپس نہیں آنا
وہ ہلکا سا مسکرائی اور بولی
ابا آپ نے مجھے ہمیشہ اپنی مرضی سے فیصلہ کرنے کا حق دیا ہے
وہ میری خوائش کے برعکس چار سالوں میں ٢ بار چھٹیوں میں واپس پاکستان آئی - امریکا میں انٹرنشپ لینے سے انکار کر دیا، ہمیشہ پی آی اے پر سفر کیا اور اپنی پاکستانی شہریت میں حقیقی فخرکیا
٢٣مئی، ٢٠٠٥ میری زندگی کا سب سے اہم دن تھا میں نے اپنی بیٹی کو ییل یونیورسٹی سے اعزاز کے ساتھ گریجویٹ ہوتے دیکھا- اسے امریکا کی صف اول کی کمپنیوں اور اداروں نے ملازمت کی پیشکش کیں لیکن اس نے پاکستان واپس آنے کا فیصلہ کیا- وہ اس ملک پاکستان کے مستقبل کے بارے میں انتہائی پرامید تھی
واپس آکر اس نے ایک ساتھ دو ملازمت کرنی شروع کی ، اس میں ہمیشہ ایک جنوں اور جذبہ موجود ہوتا تھا- وہ مستقبل کو لے کر بہت پر امید تھی، اسے پورا یقین تھا وہ پاکستانیوں کا مستقبل بہتر بنانے کے لیے بہت کچھ کر سکتی ہے- اگلے دو سال اس نے نوجوان لڑکیوں کو تعلیم دینے میں گزارے اور ان دو سال کے دوران اس نے بڑے پیمانے پر خونریزی، قتل عام، افراتفری اور دیگر مصائب دیکھے- جس میں لال مسجد نے پہلی جگہ لی مسجد کےعلماء شریعت کے نفاذ کا مطالبہ کر رہے تھے کوئی دو سو برقعہ پوش مدرسہ کی طالبات نے ارد گرد کی سرکاری املاک پر قبضہ کر لیا تھا اور ساتھ ہی ساتھ ملک بھر میں خودکش حملوں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا
اسی عرصہ کے دوران قومی اسمبلی میں نظام عدل ریگولیشن کی توثیق کی گئی ، بہت خاموشی کے ساتھ ایک آئینی ضمانت کے ساتھ ملک ناخواندہ ملاؤں کے ہاتھ میں دیا جا رہا تھا جن کا مقصد ایک خود ساختہ راستے پر ملک کو لے جانا تھا- سوات میں خواتین کو کوڑے مارے گئے طالبان کے زیر انتظام علاقوں میں مارا پیٹا گیا تھا، لڑکیوں کو اسکول جانے کی اجازت نہیں تھی- مردوں کو داڑھی رکھنے پر مجبور کیا گیا، ٹی وی اور انٹرنیٹ کی پابندی لگا دی گئی-جو بھی آواز ان کے خلاف بلند ہوئی ان آوازوں کو گولی کے زریعے خاموش کروا دیا گیا اور اس طرح خون کے پیاسے صوفی محمد اور ان کے بیٹے اسلام کے نام نہاد خودساختہ چیمپئن بن بیٹھے
امید، سلامتی، انصاف، ترقی اور ثقافت بس ایک خواب بن گیا تھا. ہم نے بہت سارے دہشت گردانہ حملے دیکھے، لاہور میں بے گناہ سری لنکا کے کرکٹ کے کھلاڑیوں پر، مساجد، مزارات اور امام بارگاہوں پر، فوج کے جوانوں پر جی ایچ کیو پر حملے سمیت ان گنت خودکش دیکھے
اس مدت کے دوران میں بار بار اپنی بیٹی سے واپس امریکا جانے کو کہتا رہا اور آخرکار ٢٠٠٨ میں وہ واپس گریجویٹ سکول میں پڑھنے امریکا جانے پر رضامند ہو گئی، اس بار بھی دوبارہ ایک مکمل اسکالر شپ پر پرنسٹن یونیورسٹی میں پڑھنے کا فیصلہ کیا- جون ٢٠١٠ دوبارہ میری زندگی میں ایک بڑا خوشی اور اعزاز کا دن تھا جب میری بیٹی نے پرنسٹن یونیورسٹی سے پبلک پالیسی میں ماسٹرز کی ڈگری لے لی-
اس مدت کے دوران سازشی نظریات کے ایک مخصوص گروپ دیگر تمام مذاہب اور عقائد کے خلاف نفرت اور تعصب پھیلانے میں لگا تھا، پنجاب کے گورنر کو ان کے اپنے سیکورٹی گارڈ کی طرف سے اسلام آباد میں دن کے اجالے میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا اور پھر ہم نے ایک عجیب تماشا دیکھا ایک قاتل کا استقبال گلاب کی پتیوں اور پنکھڑیوں کے ساتھ کیا جا رہا ہے-اقلیتی امور کے وفاقی وزیرکو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا اس کا قصور تعصب اور مذہبی جنون پھلانے والوں کے خلاف آواز بلند کرنا اور توہین رسالت کے من گھڑت جھوٹھے الزام میں جیل میں سڑ رہی ایک غریب عیسائی عورت کے لئے ہمدردی ظاہر کرنا تھا- پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی رکن اسمبلی و سابق وزیر معلومات شیری رحمن نے غیر منصفانہ اور ظالمانہ توہین رسالت کے قوانین میں ترمیم کرنے کا بل اسمبلی میں پیش کیا لیکن نجی اراکین یا حکمران جماعت کسی میں بھی اس بل کے حق میں آواز بلند کرنے کی ہمت نہ تھی اور ملک میں موجود مذہبی قوتوں کے خوف سے بل واپس لے لیا گیا
مجھے یقین ہے ایک دن پاکستان میں مذہبی جنونیت، فرقہ وارانیت اور ملک دشمن عناصر سے آزادی اور انصاف کی خاطر سبھی صوبے اجتماعی اٹھ کھڑے ہونگے اور پاکستان کو ایک نخلستان میں تبدیل کر دیا جائے گا
میں خواب دیکھتا ہوں میری بیٹی ایک دن ایسی قوم میں رہے گی جہاں پرفیصلے کسی کے مذہب یا مذہبی عقیدے کو دیکھ کر نہیں بلکہ کردار اور مواد کو دیکھ کر کیے جائیں گے اور مجھے یقین ہے وہ ایک زندہ دل قوم ہوگی
میں خواب دیکھتا ہوں پاکستان میں لڑکیوں کے ایک اچھے مستقبل کا جہاں لڑکیوں کا لباس اور دیگر معمولات زندگی اخلاق کے سرپرستوں اور ملاؤں کی طرف سے مسلط نہیں ہو گا
میری خوہش ہے کہ میں مرنے سے پہلے وہ دن دیکھوں جب مذہب کا ریاست کے معاملات سے کوئی تعلق نہیں اور لین دین نہیں ہوگا
آئیڈیلیزم، حب الوطنی اور اپنے ملک کے لئے محبت کے بلند آئیڈیاز ایک طرف ہیں، لیکن صرف میرے بچے کے لئے میری تشویش و فکر،جو میرا فخر اور خوشی ہے مجھے اس سے بھیک مانگنے پر مجبور کرتی ہے اور میں اس سے اس ملک کو چھوڑنے کے لئے بھیک مانگتا ہوں




About the author

Maani-Annex

I am an E-gamer , i play Counter Strike Global Offence and many other online and lan games and also can write quality blogs please subscribe me and share my work.

Subscribe 0
160