آج کل ہماری مثال اس کبوتر کی سی ہی ہے جو کے بلی کو دیکھنے کے بعد یہ سوچ کر آنکھیں بینڈ کر لیتا کی کہ ایسا کرنے سے اس سے اس کی مشکل آسان ہو جائے گی یا کے ختم ہو جائے گی . میری بات کرنے کا مقصد ہے کے ہمیں دوسروں ک برا بھلا کہنے سے بہتر ہے کے ہم خود اچھے بن جایں . یعنی کے اگر ہم اندھیروں کو ہی برا بھلا کہتے راہیں گے اور روشنی لانے کا کبھی سوچے گے ہی نہیں تو ہمیں کبھی بھی کوئی فائدہ نہیں ہو گا کبھی تبدیلی نہیں آ سکتی
آج کل ہر پاکستانی جانتا ہے کے اسے کن کن مشکلات سے سامنا ہے پھر بھی ہم ایک ہونے کے بجاے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھنچنے پر لگے ہوے ہیں . کوئی کسی تحریک کا بتا رہا ہے کوئی کسی جماعت کا حوالہ دیتا ہے اور اس وقت جو حکومت چل رہی ہے اسے ہی برا بھلا کہ رہے ہیں کہ اس نے ایسا کیا یہ ایسا کر رہی ہے میں کہتا ہوں کے اگر اسے حکومت میں لانا ہی تھا تو اب برداشت کرو. یہ تو نہیں کے کے بس برا بھلا کہنے سے ہی سب ٹھیک ہو جائے گا
ہمیں دوسروں کو برا کہنے سے بہت بہتر ہے کہ ہم خود سدھار جایں ہمارے اندر جو خامیاں ہیں ہمیں سب سے پہلے وہ ختم کرنی ہیں اس کے بعد پھر ہم کسی کو برا کہنے کا حق رکھتے ہیں اور جب ہم خود کو ٹھیک کریں گے تو دیکھنا بہت سی تبدیلی ہے گی ہر طرف روشنی پیدا ہو گی ہمیں اندھیروں کو برا کہنے کی بھی ضرورت نہیں رہے گی .