نظام تعلیم میں نقل ایک لعنت - حصّہ اول

Posted on at


کسی بھی ملک کے نوجوانوں  کو ہمیشہ اس کی سب سے بڑی طاقت سمجھا جاتا ہے اور ایک تعلیم یافتہ نوجوانوں کو ریاست کے لئے ایک مضبوط ستون تصور کیا جاتا ہے- تاہم، ستون مضبوط نہیں رہ سکتے اگہر یہی نوجوان طالبعلم تعلیمی زندگی میں شارٹ کٹ کے لئے تلاش شروع کر دیں گے-  ایسی صورتحال ہوتی ہے تو کسی بھی قوم کی ترقی ناگزیر ہے- افسوس کی بات ہے ! زوال کے اس عمل کی تحریک پاکستان میں گزشتہ کی دہائیوں سے چل رہی ہے اور حکومت نے بھی اس پر کوئی خاص توجہ نہیں دی



امتحانات میں نقل ( چیٹنگ ) ہمارے تعلیمی نظام میں تیزی سے مقبول ہو رہی ہے اور اس کا رجحان بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے- دن بہ دن کے اعلی دعووں اور پختہ وعدوں کے باوجود، متعلقہ حکام  روز بروز امتحانی مراکز میں بڑھتی ہوئی نقل کے فروغ کو روکنے میں ناکام نظر آرہے ہیں- حکومت کی لاپرواہی اور ناکام حکمت عملی کی وجہ سے ہم اس لعنت کے ختم ہونے کی توقع بھی نہیں کر سکتے ہیں
موجودہ امتحانات سے قبل سندھ کے وزیر تعلیم نثار کھوڑو نے ایک بیان دیا تھ کہ کسی کو نقل کرنے کی اجازت نہیں دیں گے- لیکن یہ صرف ایک بیان کا بیان ثابت ہوا، امتحانات میں نتیجہ مختلف نہیں تھا- طلباء نے واضح طور پر اس تنبیہہ کو نظر انداز کر دیا اور ہر وہ حربہ استعمال کیا جس کے ذریعہ نقل ممکن تھی ، چاہے وہ کوئی کسی ایم پی اے ، ایم این اے کی سفارش ہو یا پیسوں کا لالچ- اس سب کو دیکھ کر آپ اس بات کا اندازہ لگا سکتے ہیں امتحانات آج کل کے طلباء کے لئے صرف ایک کھیل بن چکے ہیں
پاکستان میں اس لعنت سے متاثر بدترین جگہ صوبہ سندھ ہے. جہاں شہروں کو تو گزشتہ کچھ سالوں میں آہستہ آہستہ اس لعنت کے ہاتھوں میں مبتلا کیا گیا لیکن سندھ کے دیہی علاقے بری طرح سے اس لعنت کا شکار ہیں- یہ حال ہی میں رپورٹ کیا گیا ہے کہ اندرون سندھ  میٹرک کے طالب علم سندھی متن کی کتابوں یہاں تک کہ اردو بھی ٹھیک سے نہیں پڑھ سکتے ہیں لیکن پھر بھی وہ اپنی پرائمری کلاسوں میں پاس ہوتے ہیں اور میٹرک کے آخری سال تک پہنچ جاتے ہیں
 یہاں پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کسے وہ اپنی کلاسوں کو پاس کرتے ہیں اور میٹرک کے آخری سال میں داخل ہوتے ہیں؟
اگہر آپ پاکستان کی شرح خواندگی کا گراف دیکھیں تو سندھ باقی صوبوں ( خیبر پختونخواہ، پنجاب اور بلوچستان) کے مقابلہ ملک میں سب سے زیادہ تعلیم یافتہ صوبہ ہے- لیکن سوال وہیں ہے، کیا سندھ واقعی باقی ماندہ صوبوں کے مقابلے میں اعلی معیار کی تعلیم فراہم کر رہا ہے یا یہ بہتر تعداد ظاہر کرنے کے لئے صرف ایک دھوکہ ہے- جہاں  ہمارے ملک میں جعلی ڈگریوں والے غالب ہیں وہیں ہمیں یہ فیصلہ بھی کرنا ہوگا آیا ہمیں نقل یافتہ پرچر ڈگری طلباء چاہییں یا تعلیم یافتہ طلباء



پاکستان سوشل اینڈ لیونگ سٹینڈرڈز مائیرمینٹ کے سروے کی رپورٹ کے مطابق، مرد خواندگی کی شرح 72  فیصد ہے جبکہ خواتین کی شرح خواندگی 47 فیصد پر کھڑی ہے  وہیں اگہر دیکھا جائے تو پنجاب کو خواتین کی شرح خواندگی میں بالا دستی حاصل ہے جہاں پنجاب کی خواتین کی شرح خواندگی 51 فیصد ہے



دیہی سندھ میں خواتین کی شرح خواندگی صرف 23 فیصد ہے، جبکہ مرد خواندگی کی شرح 58 فیصد ہے- افسوس، اس طرح کے تضادات کی موجودگی کی کئی وجوہات ہیں ایک بڑی وجہ جاگیرداری ہے جہاں وڈیرہ ثقافت کی موجودگی میں خواتین کے لئے تعلیم حاصل کرنا ممکن نہیں ہے- ایک اور پہلو یہ 58 فیصد مردوں میں سے اکثریت امتحانات میں نقل کے ذریعے ڈگری حاصل کر لیتے ہیں- ان میں سے تو اکثر امتحانات میں امتحانی مراکز میں اپنی شکل تک دکھانا مناسب نہیں سمجتھے پھر بھی کوئی جادوئی قوت انہیں پاس اور اچھے نمبر دلواتی ہے




About the author

160