نظام تعلیم میں نقل ایک لعنت - دوسرا حصّہ

Posted on at



نظام تعلیم میں نقل ایک لعنت - حصّہ اول پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں


نظام تعلیم میں نقل ایک لعنت - دوسرا حصّہ


ہم پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں مرد خواندگی کے رجحان کا مشاہدہ کریں تو ہم دیکھیں گے کہ ان دو صوبوں کے اعداد و شمار پر سندھ کو ان لوگوں پر غلبہ حاصل ہے- اگر ہم صرف دیہی سندھ میں خواندگی کی شرح کا اندازہ لگائیں تو ہم دیکھیں گے بلوچستان سندھ سے کہیں بہتر ہیں جہاں مردوں میں خواندگی کی شرح 65 فیصد ہے اور دیہی سندھ میں 58 فیصد ہے- خواتین میں خواندگی کی شرح میں بلوچستان اور سندھ  دونوں صوبوں کے اعداد و شمار برابر ہیں-  یہ  اعداد و شمار اس بات کا اعادہ ہیں کہ اندرون سندھ دیہی علاقوں میں بڑے پیمانے پر امتحانات میں نقل/ چیٹنگ ہوتی ہے



بدقسمتی سے، سندھ کے شہری علاقے بھی اب امتحانات کے دوران اسی طرح کے مسائل کا سامنا کر رہے ہیں اور متعلقہ حکام اس نقل مافیا  کو کنٹرول کرنے کی کوشش میں ناکام رہے ہیں-
یہاں میں ہمارے پیارے جمہوری حکمرانوں سے سوال کرنا چاہتا ہوں، کیوں وہ اس غیر قانونی عمل کو کنٹرول کرنے میں ہمیشہ سے نکام ہیں؟
وہ کون لوگ ہیں جو اس گھناؤنے جرم کی پشت پناہی کر رہے ہیں؟
کیا اس نقل مافیا کو ختم کرنے میں سیاستدانوں کو کوئی دلچسبی نہیں ہے؟
ایسی کونسی قوت ہے جو اس لعنت سے ہمارے معاشرے کو نکلنے نہیں دے رہی ہے؟
خالی بیانات جاری کرنے کے بجائے، وہ اس لعنت کا خاتمہ کرنے کے لئے ضروری اقدامات نہیں کرنا چاہئے؟



ہم نے میڈیا کی طرف سے کچھ مثبت اقدامات ہوتے دیکھے ہیں- جس کی وجہ سے  شہری سندھ میں اعلی حکام اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کچھ حرکت تو کی ہے لیکن دیہی سندھ میں صورتحال ابھی بھی انتہائی افسوسناک ہے- تقرری کا عمل امیدوار کا تعلیمی پس منظر دیکھ کر نہیں بلکے طرفداری پر کیے جاتے ہیں، اس طرح کے پیشہ ورانہ خلاف ورزیوں نے سندھ میں ( خاص طور پر دیہی علاقوں میں) تعلیم کے دائرہ کار کو برباد کر دیا ہے
طلباء اور اساتذہ دونوں ایک طویل مدت سے اس مافیا سے فائدہ اٹھا رہے ہیں، ہمیں یہ سوچنا ہوگا یہ لعنت ہماری ترقی کے امکانات اور مستقبل کی نسلوں کو تباہ کر رہی ہے طالب علم تعلیم حاصل کرنے کے اسکول یا کالج نہیں جاتے تو اساتذہ بھی اس کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں- یہی وجہ ہے کہ خاص طور پر دیہی سندھ میں طالب علموں کے نتائج اور حقیقت میں زمین آسمان کا فرق ہے- ان گریجویٹس کی اکثریت صحیح طریقے سے اپنا نام بھی نہیں لکھ سکتی- اگر کسی نہ کسی طرح یہ آگے چلے بھی جائیں تو ان کو نوکری عام طور پر اقربا پروری اور ان کے تعلیمی میرٹ پر نہیں ملتی
گزشتہ سال سندھ کے سابق وزیر تعلیم  پیر مظہر الحق صاحب نے حیدرآباد میں ایک عوامی یونیورسٹی کے قیام کی مخالفت کی، یہ تو ہمارے حکمرانوں کا حال ہے معاشرے میں بہتری لانے کے بجائے حالات اور بھی بدتر کر رہے ہیں
کراچی کی سب سے بڑی سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کو بھی شہری سندھ کے تعلیمی نظام کو برقرار رکھنے اور نقل جیسی لعنت کے خاتمہ کی ذمہ داری لینا ہوگی
میں وہ دن اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتا ہوں جب ہمارے طالب علم شارٹ کٹس کا راستہ ترک کر دیں گے- اور ہمارے ملک پاکستان کا نظام تعلیم دنیا بھر میں قابل ستائش نظروں سے دیکھے جائے گا- ہمیں بہت جلد ہی اس ذلت آمیز لعنت کو برباد کرنا پڑے گا- دوسری صورت میں ہماری آئندہ نسلوں کو ایک روشن پاکستان و مستقبل دینا صرف ہمارا ایک خواب بن کر رہ جائے گا


 


 



About the author

160