جب بہت سے لوگ خود فکری کے متعلق سوچتے ہیں، ایک خاموش اور پسماندہ بچوں میں سے ایک بچے کی تصویر ذہن میں آتی ہے، جو کہ ان کی ذات کا زبانی یا جذباتی طور پر اظہار کرنے سے معذور ہیں۔ نئی سائنس کے ابھرنے سے وسیع پیمانے پر تغیرات کی علامات جو کہ خود فکری بچوں میں ظاہر ہوتی ہیں کو سمجھنے نے ایک اثر چھوڑا ہےکہ کس طرح تشخیص کو بیان کیا جائے۔
ڈاکٹر ٹیمپل گرینڈن کی خود فکری کی نوجوانی کی عمر میں تشخیص کی گئی اور وہ کافی خوش قسمت تھی کہ اس نے اپنی ذات کو ایک ترقی کرنے والی ماحول میں پایا جہاں پر اس کے ارد گرد اس کی معاون والدین اور اساتذہ تھے۔ اگرچہ وہ دیر سے بولنے کی بیماری میں مبتلا رہی اور دوسرے خود فکری سپکٹرم بیماریوں میں ، وہ اپنے ہم جماعتوں کے ساتھ سکول گئی باوجود اس کے کہ اس کو پریشان کی گیا اور اس کی تضحیک کی اس کے ہم جماعت طلباء نے ، وہ تعلیم میں سبقت لے گئی آخر کار اس نے گریجویٹ کیا نفسیات میں ڈگری کے ساتھ فرینکلن پیئرس کالج سے۔ اس کی تعلیم کی تلاش جاری رہی اس نے ماسٹر ڈگری حاصل کی اورپھر اس نے اینیمل سائنس میں ڈاکٹورل ڈگری حاصل کی۔
ایک سائنسدان، عوامی نمائندہ اور مصنف ہونے کی حیثیت سے اس نے خود فکری میں مبتلا انسانوں نے ساتھ ساتھ جانوروں کے حقوق کی وکالت کی۔ وہ ملتمس ہے جاننے کے لیئے خود فکری کے مختلف زاویوں کو اور اس کی توجہ ابتدائ تعلیم پر ہے سماجی معذوری کو متناسب بنانے کے ذریعہ کے طور پر۔ ڈاکٹر گرینڈن حال ہی میں # ان دی لیب کے میزبان کے ساتھ بیٹھی کمزوریوں کے متعلق اپنے خیالات کے اشتراک کے لیئے جو کہ خود فکری کے مکمل سپکٹرم کو گھیر لیتی ہیں اس کے ساتھ ساتھ اس کی نئی کتاب " دی آٹسٹک برین: سپکٹرم کے پار سوچنا"
ایک بیماری جو کہ اتنی پیچیدہ ہے جتنا کہ خود انسانی دماغ ہے، ڈاکٹر گرینڈن کا کام خود فکری کے متعلق آگاہی اور دوسری نیورو ڈویلپمنٹل بیماریوں کے متعلق اولین کام اور نیا ہے اور سماجی ترقیاتی کمزریوں کے علاج میں جدید ہے۔