اجنبی شہر شناسا نظر آتا ہے مجھے
ہر طرف ایک ہی چہرہ نظر آتا ہے مجھے
اس طرف جسم بھی ساکت ہیں شجر کی صورت
اس طرف رقص میں سایا نظر آتا ہے مجھے
کس لئے حلقہ اوراق میں لفظوں کا ہجوم
بات کرتا ہے تو گونگا نظر آتا ہے مھجے
کیا تماشا ہے پس خواہش تعبیر یہاں
عرصہ خواب تماشہ نظر آتا ہے مجھے
قطرہ آب میں دیکھا ہے سمندر میں نے
سینہ ء سنگ میں صحرا نظر آتا ہے مجھے
آدمی پھر بھی ہے ہنگامہ ء دنیا میں شریک
یہ الگ بات کہ تنہا نظر آتا ہے مجھے
کیا عجب شب ہے رضی گردش افلاک کے بیچ
ہمسفر ایک ستارا نظر آتا ہے مجھے