گھر کا بھیدی

Posted on at


گھر کا بھیدی


ہمارے ملک کے کچھ نامور دانشور اور دوراندیش تجزیہ کار مسلم امہ کے موجودہ جاری کشیدہ حالات جن میں عراق ، افغانستان، شام ، مصر ، نائجیریا  اور پاکستان شامل ہیں کے سیاسی و معاشی انتشار کی وجہ عالمی طاقتوں کے مذموم ایجنٹے کی تکمیل بتاتے ہیں۔  پاکستانی عوام کب تک سیاسی و معاشی انتشار کی کفیت اپنے اعصاب پر سوار رکھے گی ، اس ملکی کشیدہ حالت پر قابو پانے کے لئےمجبوراً تیسری قوت مداخلت کرنا پڑے گی   اس کی وجہ یہ ہے سیاسی فساد و انتشار ملک کو غیر فعال اور غیر مستحکم بنا دیتےہیں۔ ملک میں سیاسی انتشار بیرونی طاقتوں کا شاخسانہ ہوسکتا ہے اس میں ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے دنیا بھر کی آبادیوں کے لائف سٹائل کو یکسانیت دینے کے لئےحربہ استعمال کیا جارہا ہو۔ کیونکہ مسلم ملکوں میں مسلمانوں کا رہن سہن اور تہذیب  غیر مسلم ممالک کی تہذیب سے مختلف ہے۔ مسلمان کی زندگی میں دین و ایمان کو اولیت حاصل ہے ایمانی قوت کے لئے دل کی روحانی قوت درکار ہے جو دل کی پاکیزگی پر منحصر ہے۔  ایک سچا مسلمان دل کی پاکیزگی کا حصول اللہ کے بتائے ہوئے راستے پر چل کر ممکن بناتا ہے۔



 مغربی لائف سٹائل اور مسلم دنیا کے لائف سٹائل میں بڑا تضاد ہے۔  سامراجی طاقتوں کے ایجنڈے میں دنیا کے ممالک کو سکیڑ کر چند ایک گروپ کی شکل میں لانا ہے۔  جس کی مثال روسی گروپ، یورپین یونین اور امریکی گروپ کی دی جاسکتی ہے۔ اس ضمن میں نظریہ یکساں لائف سٹائل پر بیشتر غیر اسلامی ممالک متفق ہو چکے ہیں اور اب کچھ راستے میں رکاوٹیں باقی ہیں جن میں اسلامی ممالک میں تہذبوں کا اسلامی تشخص ہے جس کی مسلمان قوتیں کسی صورت سودے بازی نہیں کرنا چاہتیں۔



اس کے لئے سامراجی طاقتوں کے مذموم مقاصد سامنے آ گئے ہیں اور مسلمان ملکوں میں خانہ جنگی کا ماحول ہے اور آپس میں ہی مسلمان قومیں دست و گریبان ہیں۔ ایک ایسا اکھاڑہ جس کے چاروں طرف سامراجی قوتیں مسلمانوں کی قتل غارت پر تماش بین بنی ہے تالیاں اور سیڑیاں بھی بجائی جارہی ہیں اس بات کا بے تابی سے انتظار کر رہے ہیں کہ کب مسلمان ایک دوسرے کا خون بہا کر خود ہی ایک دوسرے کی تلواروں سے تہ تیغ ہو جائے اور انہیں اپنے مقاصد اور ایجنڈے کی تکمیل میں کامیابی مل سکے۔ سامراجی قوتیں کے شاخسانے کامیاب بھی ہیں۔



بعض مسلم قوتیں جن میں ترکی اور ایران ہیں کسی حد تک سامراجی قوتوں کو ابھی بھی منہ توڑ جواب دیں رہی ہیں اور اپنے اسلامی تشخص پر آنچ نہیں آنے دیں رہیں۔  اس کی وجہ ملک میں قوم کے اندد قومی وقار اور یک جانیت زندہ ہے۔ ملک میں جمہوریت کے ساتھ جمہوری اقدار پر سختی سے عملدرآمد ہو رہا ہے۔ سارے ملک میں عوام بااختیار ہیں، عدل و انصاف اور وسائل کی ترسیل میں مساوات ہے۔  ملک کے وسائل کا استعمال صِرف ملک کے مرکزی شہروں تک محدود نہیں بلکہ جہاں عوام الناس آباد ہیں وہاں تک برابری کی سطح پر ملکی وسائل کی تقسیم ہے۔ حکومت کی بینادی ترجیح صحت و تعلیم اور روزگار کی فراہمی ہے۔ سامراجی قوتوں  کا ایجنڈہ  ان ملکوں میں ناکام ہے پھر بھی ایران کو سامراجی قوت امریکہ گاہے بہ گاہے اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کا چہرہ دیکھاتا رہتا ہے۔ اس مقصد کے لئے فرقہ وارنہ گرہوں کی حوصلہ افزائی کے لئے پیسہ اور خفیہ ایجنسیاں بھر پور ہوم ورک کر رہی ہیں۔




وطن عزیز پاکستان میں عسکری ادارہ پاک فوج پاکستان کا بیش قیمتی اثاثہ ہے۔ پاک فوج کے باصلاحیت جانفشاں جوان ملک کے اندر سامراجی طاقتوں کی پھیلائی ہوئی آگ کو اپنے خون سے بجھا رہے ہیں۔ لیکن جب تک دم میں دم ہے ممکن رہے گا لیکن ملک میں عوام جمہوری نظام ہوتے ہوئے بھی ریاستی دہشت گردی کا شکار ہے۔  الیکشن کمیشن کے رائج غیر شفاف انتخابی طریقہ کارکی بدولت عوامی منتخب نمائندوں کا تعلق جاگیرداروں اور سرمایہ داروں سے ہی ہے جو اپنے محدود مفادات کی خاطر ملک و قومی مفادات کو اکثر داؤ پر لگاتے ہیں اور سلسلہ حکمرانی کو طول دینے کی خاطر عوام کو تعلیم اور شعور و اگہی سے محروم رکھے ہوئے ہیں۔ یہ گھٹیا سوچ تو ہے ہی جو سامراجی طاقتوں کے سامنے اور بھی گھٹیا ترین حرکت ہے۔



ان لوگوں نے ملک کو اندر سے کھوکھلا کر دیا ہے ملک میں بحرانوں پر قابو پانے کے لئے کوئی ٹھوس حکمت عملی اور منصوبہ بندی سامنے نہیں ہے۔  ملک میں عوام میں بے چینی اور پرشانی ہے۔ نہ عدل و انصاف ، نہ تعلیم و صحت اور مہنگائی  و توانائی جیسے بحرانوں سے نمٹنے کی صلاحیت سے عاری ، سامراجی قوتیں سارے ملکی ابتر حالات کا باغور مشاہدہ کر رہی ہیں۔ فرقہ واریت دہشت پسندانہ عظائم  سے مسلمان آپس میں ہی گھتم گتھا ہیں۔ اپنا ہی گولا بارود اپنوں کے سروں پر بجایا جارہا ہے۔ کوئی دہشت گردی کر رہا ہے اور کوئی دہشت زدہ ہے اور کوئی دہشت گردی سے نبردآزما، لیکن جانی مالی نقصان تو اسی مسلمان قوم کا ہے اور اس کی سرزمین کا۔  



ملک میں جمہوریت کی آئینی مدت پانچ سال ہے اور نوزائیدہ جمہوری نظام کی نمو کے لئے ملک کا یہ دورانیہ پورا کرنا ناگزیر ہے۔ ناعاقبت اندیش کچھ جمہوری رہنماہوں کو سامراجی قوتوں کی طرف سے حکمرانی کا جھانسہ دیا جارہا ہے کیونکہ امریکی منظور نظر افراد کو ہی حکومت میں رہنے اور کرنے کا اختیار ہے جہاں قومی وقار و تشخص نہ ہو وہاں ایسے ہی المیات جنم لیتے ہیں۔ ایسے رہنمائوں کو عوامی مقبولیت بھی حاصل ہے لیکن حکمرانی کرنے کی لالچ ان کے تدبر و فہراست کا منہ چاٹ رہی ہے اگر ایسا ملکی سانحہ ہو گیا تو ملک کے حالات سدھرنے کی بجائے بگڑے گئے ملک میں خانہ جنگی کے ماحول میں ملکی سیاسی حالات سدھارنے کے لئے عسکری قوت کو پھر مداخلت کرنا پڑے گی۔ جس سے ملک کے اندرونی حالات وقتی تو بہتر ہو جائے گے لیکن بنیادی عوامی حقوق پامال ہونے کے ساتھ  بین الاقوامی پابندیاں ملکی خراب معشیت کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہو گی کیونکہ ہمیشہ سے ہی فوج نے ملکی خراب حالات کو سہارا دیا ہے اور سامراجی ایجنڈے کی تکمیل کے راستے میں رکاوٹ ڈالی ہے۔ آمریت عوام کے لئے سود مند نہیں، محب الوطنی اور قومی وقار کا جذبہ آزاد اور عدل و انصاف کے ماحول میں پروان چڑھتا ھے۔  جمہوریت میں استحکام کے لئے جمہوری اقدار کا احترام ضروری ہے موجودہ حالات میں گھر کے بھیدیوں کو جذبہ ٖخیرسگالی کے تحت حکومت وقت کو جمہوری آئینی مدت پورا کرنے کا موقع دینا چاہیئے اور ملک میں جاری بحرانوں کے ساتھ نمٹنے کے لئے حکومت وقت کے ساتھ مل بیٹھ کر عوام کو درپیش مسائل کا حل ڈھونڈنا چاہیے اسی میں ملک کی سلامتی اور بقا ہے اور سامراجی قوتیں کے قبیح عظائم کے منہ پر الٹا تمانچہ۔


 



160