لوگ توہم پرستی کا شکار کیوں؟

Posted on at


لوگ توہم پرستی کا شکار کیوں؟


 



 


 ہمارے اردگرد بہت سارے لوگ رہتے ہیں جن میں بہت سارے لوگ توہم پرستی کا شکار ہوتے ہیں یہ صرف دینا کے ایک ملک میں نہیں بلکہ ساری دنیا میں لوگ توہم پرستی کا شکار ہیں مثلا اگر کالی بلی راستہ کاٹ جائے تو لوگ ادھر سے گزرنا پسند نہیں کرتے اور اگر شیشہ ٹوٹ جائے تو اسے بھی منخوسیت کی علامت سمجھا جاتا ہے اور بلی کے رونے کو کسی کی موت کی علامت سمجھا جاتا ہے اس کے علاوہ کوے کا کسی کے گھر پر بولنا مہمان کی آمد کی نشانی مانا جاتا ہے۔


بعض ممالک میں ۱۳ کا ہندسے کو برا مانا جاتا ہے بعض ممالک میں تو اس حد تک ہے کہ بلڈنگ میں ۱۳ نمبر کمرہ یا فلیٹ نہیں ہوتا یعنی ۱۳ کے ہندسے کو منخوس سمجھا جاتا ہے۔


 



 


اکثر لوگ چوڑیوں کے ٹوٹنے کو اچھا نہیں سمجھتے اور اگر کسی شادی شدہ لڑکی کی چوڑی ٹوٹ جائے تو کہتے ہیں کہ ضرور کوئے مصبیت آئے گی اور لڑکیوں کو پریشان کیا جاتا ہے کہ اب چوڑی یا شیشہ ٹوٹا ہے اب تمھاری خیر نہیں۔


اکثر لوگ دوپٹہ کے الٹا لینے کو بھی غلط سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر شادی شدہ لڑکی نے دوپٹہ الٹا لیا ہے تو اس کی شادی شدہ زندگی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔


 



 


ایک لوگ الو کے بارے میں بھی بہت باتیں کرتے ہیں یہ بات درست ہے کہ الو کا خون جادو یا اسطرح کی چیزوں میں استعمال ہوتا ہے اگر کسی کے گھر پر بیٹھے تو لوگ کہتے ہیں کہ یہ اجاڑ مانگتا ہے۔


بعض اوقات ایسا کوئی واقعہ پیش آ جائے تو لوگ کہتے ہیں کہ تم پر جادو یا اسطرح کا کوئی عمل ہوا ہے جو تم پریشان ہو یا تم پر کسی آسیب یا چڑیل کا سایہ ہے حالانکہ نفسایاتی مسلہ بھی ہو سکتا ہے ۔


یہ سب باتیں لوگوں کو غلط فہمی میں مبتلا کر دیتی ہیں یہ سب کمزور ایمان لوگوں کی باتیں ہیں اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہمارے ایمان بہت کمزور ہو گئے ہیں ہم اللہ پر توکل کی بجائے اسطرح کے کاموں میں پڑ جاتے ہیں جو بعض دفعہ بے دینی کی طرف لے جاتے ہے اور پھر پریشان ہوتے ہیں ۔


 



 


ہمیں اللہ پر توکل ہونا چائیے اور اپنے ایمان کو مضبوط کرنا ہو گا صدقہ خیرات دینا چائیے نماز قرآن کو روز کا معمول بنانا چائیے تا کہ اس طرح کی باتوں سے دور رہ سکیں اور اللہ پر توکل اتنا مضبوط ہو کہ لوگ ایسا باتیں کریں تو پریشانی نہ ہو اور یہ بات بھی ذہین میں رکھنی چائیے کہ یہ سب ہندوانہ باتیں ہیں اور ساری لوگوں نے خود ہی بنائی ہوئی ہیں۔


 



About the author

mian320

I sm mr.

Subscribe 0
160