سبھی کے ساتھ محبت عجیب تھی اس کی
میں کیا کہوں کہ یہ عادت عجیب تھی اس کی
وہ دشمنوں سے بھی ملتا تھا دوستوں کی طرح
قسم خدا کی طبیعت عجیب تھی اس کی
دل حزیں تھا مگر شب چراغ کی مانند
وہ جل رہا تھا پر صورت عجیب تھی اس کی
اتارتا تھا اجالوں کے حرف کاغز پر
ہنر کے شہر میں شہرت عجیب تھی اس کی
سمیٹتا تھا ہر اک عکس اپنے چہرے پر
وہ آئینہ تھا کہ سیرت عجیب تھی اس کی
وہ سنگ زادوں میں رہتا تھا آئینے کی طرح
یہ ایک شان شجاعت عجیب تھی اس کی
زباں پہ جو بات آتی نہ تھی وہ سنتا تھا
سہیل طرز سماعت عجیب تھی اس کی