ملک صا حب دا بندا

Posted on at


انتطار ہو تو کسی کام کی چیز کا ہو۔ اس فضول سی شئے کی گھنٹہ بھر کی آس لگا رکھی تھی۔ اور وہ کسی بے وفا کے وعدے کی طرح آنے کا نام ہی نہ لیتی تھی، سواریاں تھیں کہ لمحہ بہ لمحہ بڑھتی ہی جا رہی تھیں۔ سامنے  ہوٹل پر ایک دوشیزہ کوک پیتی یوں لگ رہی تھی ، جیسے چھوٹی کوکا کولا کی بوتل  بڑی کنگ سائز بوتل میں انڈیلی جارہی ہو۔اتنے میں کسی نے نعرہ لگایا" وہ آرہی ہے۔"تمام مسافروں کی نظریں بے اختیار اس جانب اٹھ گئیں۔اور مرجھائے ہوئے چہروں پر انجانی سی مسرت پھیل گئی جیسے بھوک سے روتے بچے کو اس کی ماں آجانے سے ہوتی ہے، بس ابھی رکنے بھی نہ پائی تھی کہ مسافر بھوکے شیر کیطرح اس پر ٹوٹ پڑے۔انسانوں کا یہ سیل ِ رواں مجھے بھی اپنے ساتھ بہا کر لے گیا۔ بس میں سوار ہوتے ہی ہمیں آزادی کی جدوجہد یاد آنے لگی۔ خاص طور پر اس کال کوٹھری کی جسے تاریخ نے بلیک ہول کا نام دیا ہے۔ بس ہمیں باہمی یک جہتی اور اخوت کا سبق دیتی ہے۔چنانچہ بے شمار لوگ کم سےکم جگہ میں زندہ رہنے کا طریقہ سیکھتے ہیں۔بزرگوں سے سنا ہے کہ بس میں یوگا اور حبسِ دم کی مشقیں بہت کا م آتی ہیں۔اس وقت ہمیں ایک دوست کے قول کو سچ ماننے میں ذرا سا شک نہ  رہا کہ "اگر دنیا میں بسیں نہ ہوں تو بنی نوع انسان کیلئے ۔بڑی دشواریاں پیداہو جائیں"۔ اگرچہ ان کی موجودگی بھی کسی آفت سے کم نہیں



      بس ہر سٹاپ پر رکتی، دو سواریاں اترتی ، چار سوار ہوتیں۔



اگر کوئی سواری سیٹ کی لیے استسفار کرتی تو کنڈکٹر کی بھاری بھر کم آواز آتی "بادشاہو ساری بس خالی اے " اس طرح منزل مقصود تک ساری بس خالی ہی رہی۔



کسی نے سچ کہا ہے کہ کنڈکٹر ایسی مخلوق ہےجسے بھری ہوئی بس خالی محسوس ہوتی ہے۔اگر کوئی سواری سیٹ نہ ہونے کا جواز پیش کرتی ہے تو اسے زبردستی اند گھسیٹ لیتے ہیں۔ یہاں مجھے ایک واقعہ یاد آگیا ہے۔ ایک بار ملتان جانے کا اتفاق ہوا۔بازار سے تانگہ پر لاری اڈا پہنچا۔ میرے پاس کافی ساما ن تھا۔میں نے تانگہ بان سے کہا ذرا سامنے سے پتا کرو کہ بہاولپور ہی بس جاتی ہے، چنانچہ وہ فرمانبردار خادم کیطرح گھوڑے کا چابک چھوڑ کر چل دیا۔پھر میں نے جو دیکھا کہ دو آدمیو ں نے اسے زبردستی اٹھا کر بس  میں بٹھا دیا ۔وہ بھاگنے کیلئے ہاتھ پاوں مار رہا تھا۔ بالکل  پنجابی فلموں والا سین بن گیا تھا۔میں تانگہ سے اتر رہا تھا کہ وہ بھی ہانپتا ہوا آگیا۔ اس کہ ہاتھ سے خون بھی رس رہا تھا۔ میرے پوچھنے پر تانگہ والا ان کی ماں سے رشتہ جوڑتے ہوئے کہنے لگا، باؤ جی میں نے پوچھا بہاولپور یہی بس جائے گی ۔ انہوں نے فوراََ مجھے بس میں بٹھا دیا ۔ میں نے بڑا شور مچایا کہ میں تو کوچوان ہوں ۔ سواری تو ادھر ہے۔ بڑی مشکل سے جان بخشی ہوئی۔وہ بھی اس شرط پر  کہ میں سواری کو ابھی لاتا ہوں۔ ہنسی سے میرا برا حال ہو رہا تھا۔


          ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ بس ایک سٹا پ پر رکی ، تو ایک نوجوان سوار ہوا۔کنڈکٹر نے حسبِ سابق اس سے بھی سیٹ کا وعدہ کیا۔ کنڈکٹر حضرات ہمیشہ اس بات پر عمل کرتے ہیں کہ وہ وعدہ ہی کیا جو  وفا ہو جائے۔ جب اس نوجوان نے سیٹ کا مطالبہ کیا تو کنڈکٹر نے کہا کہ اگلے سٹاپ پر سیٹ ملے گی۔ اس پر مسافر نے دو تین خوبصورت گالیاں کنڈ کٹر کو دے ڈالیں۔ بس پھر کیا تھا کنڈ یکٹربھی آستین چڑھا کر میدان میں آگیا۔ ڈرائیور بھی بس روک کر بڑبڑاتا ہو آگیا کہ ہم ایسی سواریوں سے نپٹنا خوب جانتے ہیں ۔



 جونہی ڈرائیور نے ہاتھ اٹھایا تو ایک طرف سے آواز ائی۔ " استاد جی ملک صاحب دا بندہ اے"


"کیہڑا ملک اوے"  ڈرائیور دھاڑا۔


"وہی جو تھانہ صدر میں ایس ایچ او ہے"


ڈرائیور کا اٹھا ہوا ہاتھ ذرا ٹھہرا اور پھر تڑاخ  کا ایک تھپڑ پڑا مسافر کے منہ پر نہیں بلکہ کنڈکٹر کے منہ پر۔ اور ڈرائیور غرایا، الو کے پٹھے سواریوں سے ایسا سلوک کرتے ہوئے شرم نہیں آتی۔



میں ڈرائیور کی اس تبد یلی پر انگشت بدنداں رہ گیا۔


           عمیر علی


سابقہ بلاگ پڑھنے کیلئے اس لنک پر کلک کیجئے۔


  



About the author

160