رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے تقدم

Posted on at



بڑوں سے آگے بڑھنا۔ احمقوں کا سردار ہونا ہے جو براہ راست اسرارورموز معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں ان پر شہاب ثاقب کے بم گرائے جاتے ہیں کہ بلاواسطہ راستہ طے کرنے والوں کو کچھھ ایسی ہی سزایئں ملنی چاہیں ان کو یہ سبق دیا جاتا ہے کہ اسرار و رموز کی باتیں حاصل کرنے کے لئے انبیاء و رسل اور اولیاء اللہ سے رابطہ قائم کیا جائے گھر میں داخل ہونے کے لئے دروازے بنائے جاتے ہیں دیواروں پر چھتوں کو پھلانگ کر آنے والے چور اور ڈاکو کہلاتے ہیں جن کی سزا شہاب ثاقب ہے۔


مشرکین مکہ حج بیت اللہ سے فارغ ہو کر گھر کے دروازے سے گھر میں داخل نہیں ہوتے تھے بلکہ دیواریں پھلانگ کر یا پیچھے کی طرف سے چھت پر چڑھ کر گھر میں داخل ہوتے تھے اگر ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا ہوتا جس کی عقل گھاس چرنے نہ گئی ہوتی تو وہ ان سے پوچھتے اے احمقوں کی دنیا کے رہنے والوں کیا اللہ تعالی کے گھر کا حج چور بناتا ہے کہ چوروں کے انداز اختیار کرتے ہو


اپنی رائے سے سوچنے والے اپنی ناپختہ عقل اندھی عقل سے راستہ پوچھنے والے چلتے چلتے جتنی بھی دور نکل جائیں کسی نہ کسی گڑھے میں ضرور گریں گے شعور و آگہی کی روشنی کی شمع راستہ مختصر بھی ہوگا اور روشن بھی ۔ اسی لئے ارشاد ہے "ما یستوی الا عمی والبصیر" بینا اور نابینا دونوں ایک جیسے نہیں ہو سکتے اگر عام سا کوئی راہبر ہزاروں ماننے والوں سے بہتر ہو تو اگر دنیا کے تمام رہبروں قائدوں ریفامروں صلحاء و اولیاء انبیاء و رسل کے امام سب کے امام و وائد کی بات ہو۔ تو ان سے بڑھ کر کون بینا ہوگا۔ اس سے تقدم کی سوچ اندھے پن کے سوا کچھھ بھی نہیں۔ صلی اللہ علیہ والہ وسلم


ہاں ناپختہ عقلوں سے یا براہ راست علوم حاصل کرنے والوں کا حج ایسا ہی ہوتا ہے۔


اگر اللہ تعالی کے گھر آنے کے آداب اور مناسک حج پوچھنے کے لئے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دروازے پر آتے تھے تو حاجی بنتے چور نہ بنتے دروازوں کے راستے سے گھر میں داخل ہونا سعدوں کا کام ہے چوروں کا نہیں۔


گھر باہر دروازہ اسی لئے بنایا جاتا ہے کہ اگر تیرا دل گھر میں داخل ہونے کو چاہے یا صاحب خانہ سے ملنے محبت کرنے تعلقات استوار کرنے روابط قائم کرنے کو چاہے پھر گھر والے کے دل کے اسرار و رموز سے آگاہ ہونے کو جی چاہے تو دروازے کی کنڈی کھڑکا کال بیل دے پھر انتظار کر اپنائیت کے انداز اختیار کر ۔ کہاوت ہے کہ خالی ہاتھھ گھر جایا نہیں کرتے نذر اپنی جھولی میں ڈال کر رکھ ۔ نیاز مندی اختیار کر دروازہ کھل جائے گا ۔ گھر والا اندر آنے کی اجازت دے دے تو گھر میں داخل ہو ورنہ باہر انتظار کر پھر دوبارہ کسی وقت آ دروازہ کھٹکھٹا اوقات ملاقات ذہن میں رکھھ ایک دن دروازہ کھلے گا گھر والا کسی دن تو یہ پوچھے گا یہ کون کھڑا دربار ہمارے کبھی تو صاحب پوچھیں گے۔


یہ بات تو کھل کر کہ دی گئی ہے کہ اے میرے بندوں اب تمہیں عرش تک آنے کی ضرورت نہیں یہاں تک پہنچنا کوئی آسان نہیں اب تم اس کے پاس جاو جس نے عرش بھی دیکھھ لیا اور عرش والا بھی دیکھھ لیا جو اسرارورموز بتانے ضروری تھے وہ میں نے سارے ان کو بتا دیے ہیں وہ خلوت و جلوت کے سارے رازوں سے آگاہ ہیں اب تم آسمانوں کا طویل ترین راستہ کیوں اختیار کرو تمہارے پاس نہ رفرف نہ براق ان کے پاس ہر وہ چیز موجو ہے جس کا تم صرف تصور کر سکتے ہو۔ ہم نے اپنے محبوب کو سب کچھھ سمجھا دیا ایسے راز عرشیوں کو بھی معلوم نہیں اس لئے عرشیوں کے راز عرشیوں سے نہیں میرے محبوب سے پوچھیئے۔


مرید کا چپ رہنا اور شیخ کامل کی ہدایات پر عمل کرنا ہی بہتر ہے اپنی طرف سے بڑھ بڑھ کر باتیں بنانا اور اپنی بڑائی جتانا تباہی ہے۔ جب اپنی ہی کرنی ہے تو پھر پیر استاد کا کیا مطلب ۔


حضرت نوح کا بیٹا کشتی میں سوار ہونے کی بجائے طوفان سے خود ہی بچ نکلنے کا دعوی کرنے لگا کہنے لگا میں پہاڑ پر چڑھ جاون گا عقل کا اندھا اوپر سے اوپر چڑھنے کی سوچنے لگا اور نبی سے آگے والے کامیاب نہیں ہوں گے نبی کا حکم ماننے والے ہی نجات پایئں گے۔


اہل اللہ کے قدموں کی خاک بن ان کے قدموں کی خاک کا سرمہ بصارت کو نہیں بصیرت کو عام کرتا ہے بصیرت انسان کو اوندھے منہ گرنے سے بچا لیتی ہے ، اونٹ کانٹے چباتا ہے تو اس کی نظر تیز ہوتی ہے اگر تو بھی یہ ناگواریاں برداشت کر لے تو تیرے اندر بھی معرفت کے گل بوٹے اگیں گے۔ بس اتنا خیال رکھھ آگے نہ بڑھ 



About the author

160