ہاسٹل کی چوریاں مجبوریاں

Posted on at


یہ تو ہمیں معلوم نہیں کہ چوری کی ابتدا کب اور کیسے ہوئی لیکن اسکی انتہا کوئی نہیں۔ جب میں نے ہاسٹل میں داخلہ لیا تو نماز پڑھنے مسجد چلا گیا۔ جب نماز ادا کی اور باہر نکلا تو اس جگہ کو خالی پایا جہاں میں نے اپنے چپل رکھے تھے۔ بہت تلاش کیا مگر کہیں نشان نہیں ملا۔ بالکل پولیس والوں کو قاتل کا کوئی نشان نہ ملنے کی طرح۔ اور مجھے بہ مجبوری ننگے پاؤں اپنے کمرے میں جانا پڑا۔ اب نئے چپل خریدے اور پھر سے جب نماز پڑھنے مسجد گیا اور بعد از نماز عصر باہر نکلا تو پھر میرے چپل غیر حاضر تھے۔

میں بہت پریشان تھا کہ عجیب لوگوں سے واسطہ پڑا ہے۔ جو نماز تک نہیں پڑھنے دیتے۔ گاؤں میں چپل بڑی بے فکری سے رکھ دیتے مگر نجال ہے جو اسے کوئی میلی آنکھ سے بھی دیکھتا۔ لیکن یہ تو شہر ہے جہاں انسانوں کی بھی چوری ہوتی ہے۔ مجبوراً دوبارہ چپل خریدے۔ پھر جب مسجد گیا میں نے ایک کونے میں چپکے سے اپنے چپل رکھ دیئے۔ اور بڑے آرام سے نماز ادا کی اب جب میں خوشی سے باہر نکلا اور اپنے چپل اٹھانے گیا کہ کسی کم بخت نے اس خانے میں بھی نہ چھوڑے۔

 میں نے بھی اس مرتبہ جا کر کسی دوسرے بھائی کے چپل اٹھا لیئے۔ مجبور ہو کر چپل واپس کر دیئے۔ نئے چپل پہن کر اس مرتبہ پھر مسجد میں نماز پڑھنے گیا اور محفوظ جگہ پر اپنے چپل رکھ دیئے۔ اور بڑی سکون سے نماز ادا کی۔ چپل اٹھانے کی طرف گیا تو کسی نے ایک چپل اٹھا اسکی جگہ دوسرا چپل رکھ دیا ہے۔ میں پریشان بھی ہوا اور خوش بھی۔ پریشان اس لیئے کے میرے چپل ان بد بختوں سے یہاں بھی محفوظ نہیں رہے۔ اور خوش اسلیئے تھا کہ چپل تو موجود ہے۔ ورنہ مجھے پھر سے ننگے پاؤں کمرے میں جانا پڑتا۔

 



About the author

hadilove

i am syed hidayatullah.i have done msc in mathematics from pakistan.And now i am a bloger at filmannex.and feeling great

Subscribe 0
160