حکومتی نظاموں میں غیر تسلسل

Posted on at


  حکومتی نظاموں میں غیر تسلسل


غیر ریاستی قوتیں دنیا بھر میں جدھر بھی ہیں نظام حکومتوں کو کمزور اور تختہ نشین کرنے کے لئے  سازشوں  کا تانا بانا بنتی ہیں۔ کچھ ایسا ہی مسلہ وطن عزیز پاکستان کو درپیش ہے۔ یہ آستین کے سانپ ملکی مشینری اداروں میں عوام دشمن کاروائیوں میں مصروف ہیں جو ملکی نظام کے درودیوار کو دیمک کی طرح کھوکھلا کر رہے ہیں۔  سونے پہ سہاگہ نظام حکومت کی بنیادیں پہلے ہی کمزور ہیں اور رہی سہی کسر بدعنوان سرکار کی مشیزی ملکی عمارت کو تباہ کر رہی ہے۔  کمزور ملکی نظام میں ایک اہم درپیش مسلے میں نظام حکومت کا غیر تسلسل بھی ہے۔



 


حکومتی نظام کوئی بھی ہو چاہے شرعی ہو یا غیر شرعی ہو سیکولر ہو یا سوشل ازم ہو سب نظاموں کی اولین ترجیح عوام کی فلاح و بہود سے ہی وابسطہ ہے۔  اس کا مشاہدہ دنیا میں رائج نظام حکومتوں کو دیکھ کر کر سکتے ہیں۔  شرط صرف یہ ہے حکومتی نظاموں میں تسلسل ہو۔  مہذب قوموں میں سعودی عرب میں دیکھے بادشاہت اور مطلق العنانی نظام حکومت ہونے کے باوجود عوام پرامن پرسکون اور خوشحال ہے، امریکہ جس میں سرمایہ دارنہ نظام اور سیکولرازم ہے وہاں پر عوام خوشحال ، تعلیم یافتہ ہے ، چین میں شوشل ازم ہے وہاں پر بھی عوام پرامن اور خوشحال ہے۔  جہاں بھی حکومتی ںظاموں میں استقال رہا وہاں عوامی فلاحی منصوبوں کو پایہ تکمیل کے لئے موقع ملا۔  عوام کی ترقی اور خوشحالی اور ملکی معشیت کے پیچے حکومت کو ایک جامع منصوبہ بندی درکار ہوتی ہے جسے وقت کے ساتھ حکومتی استحکام چاہیے۔



پاکستان میں موجودہ رائج نظام حکومت تو جمہوریت ہے  جس کی بنیادوں میں جان نہیں ہے جو ابتدائی مراحل میں ہے۔  یہی وجہ ہے حکومتی نظاموں کی دیواریں اکثر ان بنیادوں پر لڑکھڑا جاتی ہے اورجمہوری نظام اپنی آئینی مدت بھی پورا نہیں کر پاتی ۔ جمہوری نظام اصل میں عوامی راہے ہے  اور عوامی راہےعام انتخابات سے لی جاتی ہے۔ عام انتخابات اگر شفاف طریقے سے کرائے جائے تو یقیناً ایک مضبوط حکومت معرض وجود میں آتی ہے جو آپنی آئینی مدت بے خوفی سے پوری کرتی ہے۔  بے خوفی اور بے باکی سے حکومت سازی کرنا بڑی صلاحیت ہے، اگر عام انتخابات میں غیر شفافیت اور دھاندلی کا عنصر ہو حکومت اکثر اپنی مقرہ مدت پوری کرنے سے پہلے  ہی بوکھلاہٹ کا شکار ہوتی جاتی ہے اکثر حکومتی کارناموں کا بذریعہ میڈیا بیانات میں ذکر کرتی ہے اگر ہماری حکومت کو موقع دیا گیا وہ کر دے گے فلاح عوامی ترقی کا منصوبہ شروع کرے گے وغیرہ وغیرہ،



 



سانحہ لاھور یا ماڈل ٹاون لاھور کے بعد اس قسم کے کمزور بیانات حکومت کی طرف سے سننے میں آہ رہے ہیں۔ اس سانحے سے حکومت کا چہرہ داغداراور بدنام ہوا ہے دوسری طرف عمران خان صاحب بھی چار حلقوں میں مبینہ دھاندلی کی تحقیق کا مطالبہ کر رہے ہیں جسے حکومت سرد خانے میں رکھنا چاہتی ہے کیونکہ اگر ان چار حلقوں میں انتخابی جعل سازی کے شواہد مل جاتے ہیں تو ملک میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے انتخابی نظام کی کمزویوں پر انگلیاں اٹھے گی اور دوبارہ نئے سرے سے عوامی چناؤ کرنے پر زور دیا جائے گا اور یہ اندیشہ غالب ہے کہ موجودہ حکومت ختم ہو جائے۔




جمہوریت کے لئے انتخابات میں دھاندلی اور جعل سازی کو ختم کیا جانا ناگیز ہے ، عام انتخابات میں شفافیت جدید اصلاحات لا کر ممکن بنایا جاسکتا ہے۔  اگر انتخابات اور عوامی نمائندوں کے چناؤ کو سستا ، صاف اور آسان بنا دیا جائے تو نظام حکومت حقیقی طور پر پائدار ہو گا اور حکومتیں بے خوفی سے اپنی آئینی مدت پوری کرے گیں۔  اداروں میں بدعنواہیت اور افسر شاہی کے  عوام سے بے رحم رویوں کو ختم کرنے کے لئے ضروری ہے نظام میں جدید کمپوٹراز آن لائن سسٹم لایا جائے اور عوامی مسائل کا بروقت تدراک کیا جائے اور سرکاری مشینری کو چلانےمیں جو بدعنوان عناصر کارفرما ہے فوری انصاف کے کٹہرے میں لا کر سخت ترین سزائیں دی جائے جو مثال عبرت ہوں۔  اگر خدانخوستہ بپھری ہوئی عوام کو انقلاب سے کوئی نہیں روک سکے گا اور انقلاب میں بدعنوان عناصر کے لئے رتی بھر رحم نہیں ہوتا اور قوم کو نئے سرے سے ملکی ممالات سنبھالنے کے لئے تنظیم نو کرنی پڑتی ہے جس کے لئے بڑی قربانیاں درکار ہوتی ہیں۔


 



160