حکومت نے پاکستان کے قیام کے بعد غیر جانبدار پالیسی پر عمل کرنا شروع کر دیا تھا لیکن پاکستان کے وزیراعظم کو١٩٤٩ء میں جب روس کے دورے کی دعوت دی گئی تو اس سی کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو سکا. پاکستان نے روس کے اس دعوت نامے کو قبول نہ کر کے بہت بری غلطی کی اور پھر بعد میں ہمیں امریکہ کے دورے پر جانے کی وجہ سے ہمیں امریکہ کا اتحادی سمجھا گیا.یہاں تک کہ پاکستان ١٩٥٥ء میں امریکہ کےدو دفاعی معاہدات یعنی سیٹو اور سینٹو میںبھی شریک ہو گیا پھر پاکستان کو ١٩٦٥ء کے بعد اپنی خارجہ پالیسی پر غور کرنے کا احساس ہوا. آہستہ آہستہ پاکستان کے چین، روس اوردوسرے دیگر ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات بننا شروع ہوۓ.
ہر ممالک کی خارجہ پالیسی کے اپنے اپنے اصول ہوتے ہیں جو کہ جعرافیائی، تاریخی اور نظریاتی بنیادوں پر طے پا ۓ جاتے ہیں. اسلامی ملک کی حیثیت رکھتے ہوۓ، عالمِ اسلام کا اتحاد اور عالمی امن کا قیام ہی پاکستان کی خارجہ پالیسی کی بنیاد ہے.
پاکستان کی خارجہ پالیسی کا ایک نمایاں اصول یہ بھی ہے کہ غیر اٹیمی علاقہ بحرہند کو ٹھہرایا جاۓ تاکہ یہ خطہ جنگ کی تمام تر تباہیوں سے محفوظ رہے. پاکستان نے غیر جانبدار تحریک، اقوام متحدہ، اسلامی سربراہی کانفرنس حتی کہ ہر ادارے میں اس قسم کے خیالات کا بہت زیادہ اظہار کیا.
اگرچہ پاکستان جنگ کا حامی نہیں اور نہ ہی اپنی دفاعی ضروریات سے غافل ہے. پاکستان یہ بات بہت اچھی طرح جانتا ہے کہ جنوبی ایشا میں ہی طاقت کا توازن جنگ کو روکنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے.